لاہور(جدوجہد رپورٹ) طلبہ یونین کی بحالی کے لیے آر ایس ایف نے ملک گیر احتجاجی پروگرامات منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ احتجاجی پروگرامات کے لیے جاری کیے گئے پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ 9فروری پاکستان کے طلبہ کے لئے تاریخ کے سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ سال 1984ء میں اسی دن کو ضیاالحق کی رجعتی آمریت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کرتے ہوئے بنیادی ترین جمہوری حقوق پر شب خون مارا تھا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ بعد کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بھی اس پابندی کو بدستور قائم رکھا گیا۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ کی حکومتوں‘ حتیٰ کہ مختلف صوبوں میں قوم پرست جماعتوں کی حکمرانی میں بھی طلبہ کو یونین سازی کے حق سے محروم رکھاگیا۔ اس دوران باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طلبہ سیاست کو بدنام کیا گیا۔ ریاستی آشیر باد میں دائیں بازو کی بنیاد پرست اور شدت پسند تنظیموں کاتعلیمی اداروں میں غنڈہ راج قائم کروایا گیا۔ طلبہ کو تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمی اور نظریاتی بحث سے دور رکھنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں ہی نسل، زبان، مذہب، قوم اور علاقے کی بنیاد پر طلبہ کو تقسیم کرنے کی واردات بھی شروع کی گئی۔ تاکہ انہیں جبر و استحصال کے سرمایہ داری نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر متحد اور منظم ہونے سے روکا جا سکے۔ لیکن شدید ریاستی جبر، یونین سازی کے فقدان اور مروجہ سیاسی پارٹیوں کی گہری نظریاتی زوال پذیری کے ماحول میں بھی طلبہ سماجی اتھل پتھل میں کسی نہ کسی شکل میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ چاہے وہ مشرف آمریت کے خلاف جدوجہد ہو یا قومی جبر و محرومی کے خلاف ابھرنے والی تحریکیں۔ لیکن تعلیمی اداروں میں نمائندگی کے حامل جمہوری اداروں کی عدم موجودگی میں طلبہ کو دبانا، کسی بڑی تحریک میں منظم ہونے سے روکنا اور ان کا استحصال کرنا حکمران طبقات کے لئے قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں مروجہ سیاست کی تمام پارٹیاں‘نوجوانوں بالخصوص طلبہ کو اپنی گھناؤنی سیاست کا ایندھن بناتی رہی ہیں۔ جن میں نوجوانوں کی نمائندگی اور تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ نوجوانوں میں انفرادی بقا، لالچ، مقابلہ بازی، کیرئیرازم اور موقع پرستی کے غلیظ رحجانات کی آبیاری کا عمل مختلف طریقوں سے آج تک جاری ہے۔ جبکہ طلبہ یونین کی بحالی کے سارے وعدے ادھورے ہی رہے ہیں۔
اس دوران سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کیساتھ طلبہ کے مسائل مسلسل سنگین ہوتے گئے ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی گئیں۔ فیسوں میں ہو شربا اضافے ہوئے۔ ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ نااہل اور سفارشی بھرتیوں کے انبار لگائے گئے۔ انتظامیہ کی کرپشن اور بدعنوانی تعلیمی اداروں کوکھوکھلا کرتی چلی گئی۔ طاقت اور اختیارات چند افراد کے ہاتھوں میں مجتمع ہوتے گئے جس نے ہراسانی کی انتہائی جابرانہ اشکال کو جنم دیا۔ یہ مسئلہ آج ایک عفریت کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں سکیورٹی کے نام پر جبر کا معاملہ ہے۔ جس نے انہیں جیلوں اور چھاؤنیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں بدترین سماجی و ثقافتی گھٹن پائی جاتی ہے اور طلبہ اپنی مرضی کا لباس تک پہننے سے عاری ہیں۔ تعلیم کے نصاب اور طریقے بالکل متروک (Outdated) اور غیر سائنسی ہیں۔ جن میں رجعتی، بنیاد پرستانہ اور قدامت پسندانہ مواد، رویوں اور بیانیوں کی بھرمار ہے۔ نئے تعلیمی اداروں کا قیام تو درکنار پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کا انفراسٹرکچر بھی انتہائی دگرگوں ہو چکا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے دیوہیکل اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات اور ریاستی فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ لیکن حکمران اپنے عوام دشمن نظام کے خساروں کو پورا کرنے کے لئے پہلے سے موجود سہولیات بھی چھینتے جا رہے ہیں۔
2017ء میں مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف جنم لینے والا غم و غصہ پاکستان میں طلبہ تحریک کے احیا میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ دہائیوں بعد تعلیمی اداروں اور نظام کے مسائل، طلبہ حقوق اور سیاست جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔ دوسرے فوری نوعیت کے ایشوز کیساتھ ساتھ طلبہ یونین کی بحالی کے لئے بھی ملکی سطح پر موبلائزیشن دیکھنے میں آئی۔ اسی دوران ’ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ‘(RSF) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بعد کے برسوں میں دیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے ہمراہ جدید ملکی تاریخ کے سب سے بڑے طلبہ مارچ، احتجاجات اور مظاہرے منظم کیے گئے۔ اس دیوہیکل یکجہتی اور تحرک کے نتیجے میں طلبہ کی آواز حکمرانوں کو بھی سننا پڑی۔ طلبہ کی ایجی ٹیشن کو کسی حد تک مین سٹریم میڈیا میں بھی کوریج ملی۔جبکہ حکومت اور اپوزیشن سمیت بیشتر سیاسی جماعتوں کے افراد کو طلبہ یونین بحالی کے حق میں بیانات دینا پڑے۔ طلبہ تحریک کے بڑھتے دباؤ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں طلبہ یونین بحالی کی قرار دادیں پیش ہوئیں اور کچھ صورتوں میں منظور بھی ہوئیں۔ لیکن یہ سارا عمل کاغذی کاروائی تک ہی محدود رکھا گیا۔ کیونکہ ماضی کی آمریتوں کی طرح آج کی نام نہاد جمہوری حکومتیں بھی بخوبی واقف ہیں کہ منظم، بااختیار اور باشعور طلبہ ان کے سارے استحصالی نظام کے لئے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ وعدوں اور قرار دادوں کے جھانسے کے ذریعے طلبہ تحریک کا زور توڑنے کی عیاری کی گئی۔ آج ایک بار پھر طلبہ یونین کی بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ جبکہ حکمرانوں کی اپنی نوراکشتی کو سارے معاشرے پر مسلط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کے لئے ہر طرح کے سیاسی سرکس سجائے جاتے ہیں، کارپوریٹ میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے اور انتخابات کے ڈھونگ رچائے جاتے ہیں۔ لیکن حکمران طبقات کی آپسی لڑائیوں میں پستے عوام ہی ہیں۔ جن کا بڑا حصہ پھر نوجوانوں پر ہی مشتمل ہے۔
اس سب کے باوجود تعلیمی اداروں میں شدید گھٹن، جبر اور بے بسی کے ماحول کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئی ہیں۔ ہراسانی کے خلاف طلبہ نے جراتمندی کے کئی مظاہرے کیے ہیں۔ میس، ہاسٹلوں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی سہولیات میں بہتری کی خاطر بھی احتجاج ہوئے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں قومی جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد میں طلبہ پیش پیش رہے ہیں۔ لیکن مختلف مسائل کے خلاف ان تمام لڑائیوں کو طلبہ یونین کے حصول کے جمہوری حق کے ساتھ جوڑنا لازمی ہے۔ ہراسانی کمیٹیوں کے قیام سے لے کے تعلیمی اداروں میں سکیورٹی اداروں کی بے جا مداخلت کے روک تھام تک اور فیسوں میں کمی سے لے کے بنیادی سہولیات کی فراہمی تک‘ طلبہ حقوق کی جدوجہد کی کامیابی ان کی منظم اور جمہوری نمائندگی کے بنیادی حق کے ساتھ مشروط ہے۔ احتجاجات کی بدولت وقتی کامیابیاں ہمت و حوصلے کا باعث ضرور ہیں۔ لیکن مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ جزوی، ادھوری اور بکھری ہوئی جدوجہد کے ذریعے حل نہیں ہو سکتے ہیں۔ طلبہ یونین کے پلیٹ فارم سے ہی انہیں موثر اور زور دار طریقے سے اجاگر کیا جا سکتا ہے اور ان کے مستقل اور دیرپا حل کی لڑائی بڑے پیمانے پر آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں میں طلبہ کی دونسلوں کو ان کے بنیادی جمہوری حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ لیکن اب وقت کروٹ بدل رہا ہے۔ پورے ملک اور اس کے زیر انتظام علاقوں میں ترقی پسند طلبہ کا اتحاد اور منظم جدوجہد ہی ان کی فتح اور نجات کی ضامن ہو سکتی ہے۔
چارٹر آف ڈیمانڈ / پروگرام و مطالبات
1۔ نجی و سرکاری یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کی فیسوں میں اضافے کا سلسلہ بند کیا جائے اور پچھلے تین سال کے دوران کیا گیا اضافہ واپس لیا جائے۔
2۔ آئی ایم ایف کی ایما پر سرکاری تعلیمی اداروں بشمول سکولوں کی کلی یا جزوی نجکاری کا عمل فوراً بند کیا جائے اور نجی تحویل میں دئیے گئے اداروں کو واپس قومی تحویل میں لیا جائے۔ نظام تعلیم پر اجارہ دارانہ یا حاوی حیثیت رکھنے والے تمام تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے اساتذہ و طلبہ کی منتخب کمیٹیوں کے تحت چلایا جائے۔
3۔ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے جی ڈی پی کا کم از کم 10 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جائے اور ہر سطح پر مفت اور معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یونیورسٹی بجٹ اور آڈٹ رپورٹ تک طلبہ کی رسائی ممکن بنائی جائے۔
4۔ بنیادی تعلیم سے محروم اور چائلڈ لیبر کے شکار ڈھائی کروڑ سے زائد بچوں کو معقول وظیفہ جات کے ذریعے تعلیم کی طرف راغب کیا جائے اور سکولوں میں دو وقت کی صحت بخش غذا بالکل مفت فراہم کی جائے۔
5۔ ہراسانی کے واقعات کی تحقیقات کے لئے طلبہ کی شمولیت پر مبنی ایک بااختیار اور آزاد کمیشن بنایا جائے۔ جس کی رپورٹس کو پبلک کیا جائے۔ تمام نجی و سرکاری تعلیمی اداروں میں انسدادِ ہراسانی (Anti Harassment)کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں جمہوری انداز سے منتخب طلبہ (بالخصوص طالبات) کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
6۔ سکیورٹی اور ڈسپلن سمیت تعلیمی اداروں کے انتظامی و تدریسی امور کی انجام دہی کے لئے پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور شفاف ریکارڈ کے حامل سویلین افراد ہی بھرتی کیے جائیں۔ طلبہ کے ساتھ سکیورٹی کے نام پر ناروا اور امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور تمام تعلیمی اداروں کو ڈی ملٹرائز کرتے ہوئے رینجرز اور ایف سی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دخل اندازی بند کی جائے۔
7۔ بنیادی حقوق اور انصاف کے حصول کی خاطر احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف تادیبی / انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ بند کیا جائے، ایسی ایف آئی آرز فوری طور پر واپس لی جائیں اور تمام اسیر طلبہ کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔
8۔ جبری گمشدگی کے شکار طلبہ کو فوری بازیاب کیا جائے۔ طلبہ رہنماؤں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات‘ فورتھ شیڈول سمیت دیگر تمام سامراجی قوانین کا استعمال بند کیا جائے۔
9۔ تمام دور دراز‘ پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹیوں کا قیام یقینی بنایا جائے اور بڑے شہروں کے اداروں میں ان علاقوں سے آنے والے طلبہ کا کوٹہ بڑھایا جائے۔
10۔ تعلیمی نصاب سے رجعتی، نفرت انگیز اور شدت پسند انہ مواد حذف کیا جائے۔ نظام تعلیم کو عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے اور سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں معیار تعلیم اور سہولیات کی تفریق ختم کی جائے۔
11۔ مفت اور معیاری ٹرانسپورٹ، لائبریری، انٹرنیٹ، ہاسٹل اور میس جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
12۔ ہاسٹلوں کی تعداد اور گنجائش میں طلبہ کی تعداد کے مطابق خاطرخواہ اضافہ کیا جائے۔ ہاسٹلوں کے اوقات کار پر قدغنوں کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں طلبا و طالبات کے لئے یکساں کیا جائے۔
13۔ تعلیمی اداروں میں قوم، زبان، صنف یا مذہب کی بنیاد پر طلبہ کے ساتھ تعصب، امتیازی سلوک اور ہراسانی کو بند کیا جائے۔
14۔ تعلیمی اداروں میں بنیاد پرست تنظیموں کی آبیاری اور پشت پناہی کا عمل بند کیا جائے۔ انتظامیہ اور فیکلٹی میں ایسی تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔
15۔ تمام فارغ التحصیل طلبہ کو باعزت روزگار فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر سرکاری طور پر مقرر کردہ کم از کم اجرت کے مساوی بیروزگاری الاؤنس فراہم کیا جائے۔
16۔ 13 اپریل کو مشال خان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے سالانہ عام تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ مشال خان کے قاتلوں پر ازسر نو مقدمات چلاتے ہوئے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
17۔ افغانستان میں طالبان کی رجعتی حاکمیت سے تمام اعلانیہ و غیراعلانیہ تعلقات منقطع کیے جائیں اور وہاں خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی کی سرکاری سطح پر مذمت کرتے ہوئے خواتین کی تعلیم کی بحالی کے لئے ہر ممکن دباؤ ڈالا جائے۔
18۔ امریکہ سمیت تمام عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کی اطاعت و غلامی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کو ضبط کرتے ہوئے ان عوام دشمن قوتوں کو ملک سے بے دخل کیا جائے۔
19۔ نسل کشی سے دوچار فلسطینی عوام کی آواز ہر عالمی پلیٹ فورم پر بلند کرتے ہوئے انہیں ہنگامی بنیادوں پر مالی، سیاسی، سفارتی امداد اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ دو ریاستی حل کی منافقت کو رد کرتے ہوئے اسرائیلی صیہونی ریاست کے وجود کے حق کو مسترد کیا جائے۔
20۔ طلبہ یونین کو بحال کرتے ہوئے ملک بھر میں طلبہ یونین کے الیکشن کا شیڈول فوری جاری کیا جائے۔