لاہور (جدوجہد رپورٹ) بائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو (پی ایس سی) کے زیر اہتمام طلبہ یونین کی بحالی، فیسوں میں کمی سمیت 12 مطالبات کے حصول کیلئے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ یہ دھرنا 9 فروری جمعرات کے روز طلبہ یونین پر پابندی عائد کئے جانے کے 38 سال مکمل ہونے کے موقع پر دیا گیا تھا، جو غیر معینہ مدت تک جاری رکھا جائیگا۔
پی ایس سی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق احتجاجی دھرنا میں گلگت بلتستان کے ترقی پسند رہنماؤں بابا جان اور شبیر مایار، حقوق خلق موومنٹ کے رہنماؤں فاروق طارق، عمار علی جان، ایڈووکیٹ حیدر بٹ اور مزمل خان، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ہزارہ رہنما ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر اور پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے سابق صدر محسن ابدالی اور بانی رکن عروج اورنگزیب سمیت سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔
تعلیم، اظہار اور دیگر ضروریات کے نعروں سے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا گیا، جس کے بعد پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے نائب صدر علی رضا نے مظاہرے اور دھرنے کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ آج کے دن 1984 ء کو ضیاالحق نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی۔ آج کے دن اکٹھے ہونے کا مقصد آمریت اور اس کے اقدامات کو رد کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے نہ صرف ہمارا ملک مسلسل سیاسی قیادت سے محروم رہا ہے بلکہ جامعہ میں طلبہ کے مسائل بھی انتہائی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ”ایک طرف نمائندگی نہ ہونے کے باعث جہاں طلبہ کو کیمپس پر صاف پانی، علاج، ہراسگی کمیٹیوں اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات حاصل نہیں، وہیں اس منظم آواز کی کمی کی وجہ سے تعلیم کی نجکاری معمول بن چکی ہے۔ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے طلبہ یونین ضروری ہے اور اسی کے لیے آج ہم سڑکوں پر ہیں۔“
حقوق خلق موومنٹ کے رہنما فاروق طارق کا کہنا تھا ”آج میں طلبہ میں وہی جذبہ دیکھ رہا ہوں جو 70ء اور 80ء کی دہائی میں طلبہ کی مزاحمت میں نظر آتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ یہ طلبہ اپنا حق لے کر رہیں گے۔“
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی بانی رکن عروج اورنگزیب نے آزادی اظہار پر پابندیوں اور بورژوا جمہوریت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”اس نظام میں جمہوریت کی بات تو ہوتی ہے لیکن عام طبقے کے لیے اس نظام میں سیاست کرنا ناممکن ہے، طلبہ یونین امیروں کے اس سرکل کو توڑنے کا ایک ذریعہ تھی جسے ختم کر کے عام طبقے کے سیاست میں معمولی حصے کو بھی ختم کر دیا گیا۔“
گلگت بلتستان کے رہنما بابا جان نے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اور دیگر ترقی پسند طلبہ کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ”پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص آپ طلبہ ہی ہیں جو اشرافیہ کے جبر کے خلاف منظم مزاحمت کا رستہ ہموار کر رہے ہیں۔“
احتجاجی دھرنا میں ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (آر ایس ایف)، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (پی ایس ایف) کے علاوہ دیگر طلبہ تنظیموں کے نمائندگان اور وفود نے بھی شرکت کی۔
احتجاجی دھرنا کے شرکا کے مطالبات درج ذیل ہیں:
1۔ طلبہ یونین پر عائد پابندی فی الفور ختم کی جائے۔
2۔ یونیورسٹی داخلے کے وقت طلبہ سے سیاست نہ کرنے کا حلف نامہ آئین کے آرٹیکل 17 سے متصادم ہے اسے فوری ختم کیا جائے۔
3۔ طلبہ کو سٹوڈنٹ کارڈ پر ترجیحی بنیادوں پہ مفت معیاری علاج کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
4۔ طلبہ کو ٹرانسپورٹ کرائے کی مد میں 50 فیصد رعایت دی جائے۔
5۔ تمام جامعات میں ہراسانی کمیٹیوں کا قیام اور اس میں طلبہ کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
6۔ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ سمیت ملک بھر سے جبری طور پر گمشدہ تمام طلبہ اور اساتذہ کو رہا کیا جائے۔ مزید برآں تعلیمی اداروں سے رینجرز اور ایف سی کا انخلا یقینی بنایا جائے۔
7۔ تعلیمی اداروں میں داخلے کے وقت مرد اور عورت کی کیٹیگری کے علاوہ خواجہ سرا کیٹیگری بھی شامل کی جائے اور متجنس افراد ایکٹ 2018ء پر عمل یقینی بنایا جائے۔
8۔ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ جامعات کے قیام کا عمل تیز کیا جائے بالخصوص پاکپتن میں بابا فرید یونیورسٹی کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔
9۔ تمام جامعات میں فیسوں میں حالیہ اضافہ واپس لیا جائے۔
10۔ ایچ ای سی کی بجٹ کٹوتیاں واپس لی جائیں اور کل جی ڈی پی کا 5 فیصد تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔
11۔ پچھلے سال سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ گورنر پنجاب کی جانب سے سکالرشپس بحالی کا وعدہ پورا کیا جائے اور اسلام آباد میں سابقہ فاٹا اور بلوچستان کے طلبہ کی جانب سے 265 سیٹوں کی بحالی کے لیے جاری دھرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کیا جائے۔
12۔ مقامی میڈیکل گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 اور فارن گریجوایٹس کے لیے این ایل ای 2 میں مینڈیٹری سٹیشن ختم کیے جائیں۔