پاکستان

رجعتی دور کے تقاضے

فاروق طارق

پاکستانی حکمران طبقات کی لڑائیاں بڑہتی جا رہی ہیں جو اب ریاست کے اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ اداروں کی سیاسی وابستگیاں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ مسلم لیگی راہنما جب بھی تھوڑی زیادہ تنقید کرتے ہیں نیب کا ادارہ فوری کرپشن میں ملوث ہونے کا نوٹس بھیجتا ہے اور پھر گرفتاری کر لی جاتی ہے، تازہ ترین مثال احسن اقبال کی ہے۔

جوڈیشری بھی کافی متحرک دکھائی دے رہی ہے اس نے وہ فیصلے کئے ہیں جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

سرمایہ داری نظام کو چلانے والے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اس سب کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حکمران طبقات اپنی موجودہ لڑائیوں کے دوران بھی مہنگائی کرنا نہیں بھولتے۔ ہر ماہ بجلی کے نرخوں میں خاموشی سے اضافہ کر لیا جاتا ہے۔

ہم آج ایک مشکل اور رجعتی رد انقلابی دور سے گزر رہے ہیں اس میں تو بات کرنا بھی مشکل ہو رہی ہے مگر ایسے ہی دور میں بات کریں گے تو بات بنے گی۔ رجعتی دور کی حکمت عملی وہ نہیں ہو تی جو انقلابی دور کی ہوتی ہے۔ ہمیں جہاں اس مشکل دور کامقابلہ کرناہے وہیں ہمیں اپنے سوشلسٹ انقلابی نظریات کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ داری اورجاگیرداری کو بے نقاب بھی کرنا ہے۔ یہ ایک ہمہ اطراف حکمت عملی ہو گی جو اپنوں کو جوڑتے ہوئے اور مخالف طبقات کو توڑتے ہوئے آگے بڑھے گی۔

جنرل مشرف جن کو اب سزائے موت سنائی گئی ہے۔ عمران خان کے پسندیدہ بھی رہے ہیں اور شدید نفرت کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔

جنرل مشرف کے کارناموں بارے 2017ء میں جب عمران خان نے اپنے جلسے میں ایک دستاویزی فلم کے ذریعے انکی تعریفیں کرتے دکھایا گیا تو اس وقت جنرل مشرف کی ٹون اور زیادہ آمرانہ ہو گئی ہے۔ پھر مشرف نے یہ ہزرہ سرائی بھی کی کہ ”آمریت، جمہوریت سے بہتر ہوتی ہے، پاکستان کو سویلینز نے تباہ کیا اور آمریت نے بچایا“ یہ باتیں اب ان کا ایک شاگرد شیخ رشید روز دہراتا ہے۔

جب سے جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی گئی ہے آمریت ایک دفعہ پھر سر اٹھا رہی ہے۔ سویلینزکو بدعنوان اور بے کار ثابت کیا جا رہا ہے۔ نام نہادسرمایہ درانہ جمہوریت کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا جاری ہے لیکن یہ کوئی اس میں بہتری کے لئے نہیں بلکہ آمریت کے نظریات کو مضبوط کرنے کے لئے کیا جا رہاہے۔

پاکستان کے 70 سالوں میں فوجی آمریتیں 32 سال براہ راست اقتدار میں رہی ہیں اور باقی سالوں میں بالواسطہ طور پرہر سویلین کو ڈکٹیٹ کراتے رہے ہیں۔ جنرل مشرف کو عوام کی ایک بھاری اکثریت نے تھو تھو کر کے اقتدار سے نکالا تھا۔ لوڈ شیڈنگ مشرف دور کا سب سے بڑاتحفہ تھا۔

وہ نو سال اس لئے نکال گیا کہ انہیں ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے سویلینز مل گئے تھے۔ ان کے ابتدائی دور میں عمران خان اور طاہرالقادری ان کی حمایت کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ 2002ء کے بعد انہیں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی وغیرہ مل گئے۔ نواز شریف کے ساتھ اس وقت شامل 37 ممبران اسمبلی اس دور میں جنرل مشرف کے ساتھ تھے۔ یہ سارے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کے ساتھ مل گئے۔

تمام مذہبی سیاسی جماعتیں جیسا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی مشرف کی حامی رہیں ہیں۔ ایل ایف او کے ذریعے اس کے وردی میں صدر بنے رہنے کا موقع بھی متحدہ مجلس عمل نے فراہم کیا جو مذہبی جماعتوں کا الائنس تھا اور خیبر پختون خواہ میں اس کی حکومت تھی جس طرح آج عمران خان کی ہے۔

سرمایہ داری نظام میں پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں جمہوریت بھی ان جیسی ہی ہوتی ہے جو اس کو چلا رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں جاگیردارانہ نظام ابھی بھی اپنی ننگی شکل میں موجود ہو وہاں اس کا سب سے بڑا نقصان محروم طبقات کو ہوتاہے۔

میاں نواز شریف جس جگہ اپنے رجعتی خیالات میں کھڑا ہے، عمران خان اس سے چار قدم اور آگے ہے۔ سرمایہ دار طبقات میں کوئی بھی ترقی پسند نہیں ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی چننے کی ضرورت نہیں۔

سرمایہ درانہ جمہوری نظام میں آمرانہ نظام لانے کی آوازیں بلند ہوتی رہیں گی کیونکہ یہ نظام محنت کش طبقات کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں ناکام ہے مگر جو بھی آمریت کو لانے کے خلاف کھڑا ہو گا اس کے ساتھ وقتی طورپر مل کر آمریت مخالف آواز اس طرح بلند کی جا سکتی ہے کہ ان میں خوش فہمیاں پیدا نہ ہوں۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔