پاکستان

یکساں قومی نصاب کا عمیق جائزہ (دوسری قسط)

ڈاکٹر اے ایچ نیر

ترجمہ: ایف ایس

پہلی قسط یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔

اب ہم یکساں قومی نصاب (ایس این سی) کی طرف آتے ہیں۔

آئین شکنی

ایس این سی میں وفاقی حکومت نے صوبوں کی آئینی حدود کی خلاف ورزی کی ہے۔ پارلیمان نے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نصاب سازی کا اختیار صوبوں کو منتقل کردیا تھا، جس سے وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار وفاقی دارالحکومت اور ان تعلیمی اداروں تک محدود ہو گیا جو براہ راست اس کے کنٹرول میں آتے ہیں۔

اس سے وہ لوگ برگشتہ ہوئے جو (غلط طور پر) صوبائی خود مختاری کو قومی یکجہتی کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ بھی اس سے ناراض ہوئے جو مستقبل کی نسلوں کو عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی بجائے اسکول کی تعلیم کو ایک مشق اور نوجوان ذہنوں کو نظریاتی طور پر متاثر کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نصاب کو اس طریقے سے دوبارہ مرکز کے دائرہ کار میں لانے کا ایک تکلیف دہ اور ناگزیر نتیجہ معاشرتی علوم کے نصاب میں فوری طور پر ظاہر ہوا ہے۔

مرکز گریز نصاب میں ایک بچے کو اپنی ذات، کنبے، محلے، پھر اپنے ضلع، صوبے اور قوم کے بعد دنیا کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اس دوبارہ بنائے گئے مرکزی نصاب میں بچہ اس کے برعکس اپنی ذات، کنبے، محلے سے سیدھا قوم کے بارے میں آگاہی پاتا ہے۔ اس چھلانگ والے نصاب کی وجہ سے بچہ اپنے ضلع یا صوبے کے بارے میں کبھی نہیں جان پائے گا، جو بچے کے عالمی نظریے کی تشکیل کے لئے سنگین نقصان دہ ہوگا۔ صوبہ گریز چھلانگ ان لوگوں کی دانستہ پالیسی ہے جو تنگ نظر قوم پرستی کے تحت مقامی شناخت کا انکار کرتے ہیں۔

نئے نصاب کے ساتھ ”ایک قوم ایک نصاب“ کا نعرہ دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ایک نصاب کے بغیر ہم ایک قوم نہیں رہ سکتے۔ یہ غلط ہے۔ متعدد نصاب رکھنے والے ممالک کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ایک سکول کا دوسرے سکول سے نصاب مختلف ہے، اس کے باوجود مشترکہ قومیت کا تصور مضبوط ہے۔ یکسانیت کے حامی ایک معروف قول کو ذہن میں رکھیں، ”یکساں رنگ صحراؤں کا ہوتا ہے، باغات کی خوبصورتی ان کے تنوع میں ہے“۔ تناؤ اور اختلافات پاکستان میں موجود ہیں، تاہم ان کے اسباب سکول کے نصاب میں نہیں پائے جاتے۔ لایعنی نعرے بازی پاکستان کے مختلف لوگوں کے مابین مزید اتحاد پیدا کرنے کی بجائے مزید انتشار پیدا کر سکتی ہے۔

تعلیمی تفریق

تعلیمی تفریق کو یکساں نصاب تعلیم کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں، پاکستانی تعلیمی نظام تین درجوں میں تقسیم ہے۔ مہنگے نجی سکولوں کی ایک قلیل تعداد جو طلبہ کو غیر ملکی امتحانات کے لئے تیار کرتی ہے۔ متوسط سرکاری و نجی سکول جو وفاقی و صوبائی نصاب پر عمل پیرا ہیں اور مدرسہ تعلیم، جس کا مقصد ملاں پیدا کرنا ہے۔

وزیر اعظم اس تفریق کی بہت پرجوش مخالفت کرتے رہے ہیں، ہر درجے میں پیدا ہونے والی صلاحیتوں کے فرق اور تینوں درجوں کے فارغ التحصیل طلبہ کو زندگی میں ملنے والے مواقع کے درمیان فرق کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایلیٹ اسکولوں کے طلبہ کو بہترین مواقع میسر ہیں جبکہ مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کیلئے یہ مواقع نہ ہونے کے برابرہیں۔ یہ درست ہے۔

ماضی میں بہت سی حکومتوں حتیٰ کہ مذہبی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی بھی یہ خواہش رہی ہے کہ مدرسوں کو مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے تمام مدارس کی کانفرنسوں کا انعقاد کیا تاکہ وہ دینی تعلیم کے علاوہ عصری مضامین کو بھی پڑھائیں۔ مدارس کا ہٹ دھرمی پر مشتمل جواب یہ تھا کہ مدارس کے وجود کا مقصد اسلامی عقائد اور مسالک کی پیچیدگیوں پر مشتمل مباحث کو تازہ رکھنا ہے تاکہ انہیں فراموش نہ کیا جائے اور مدرسے اس لیے موجود ہیں کہ دینی تعلیم کو زندہ رکھنے کے لیے علما پیدا کئے جائیں۔

لیکن گیارہ ستمبر کے بعد کے ماحول میں جب سب نگاہیں مدارس پر مرکوز ہوئیں تو پرویز مشرف حکومت نے مدارس کو عصری مضامین متعارف کرانے پر آمادہ کیا۔ ان مضامین میں انگریزی، ریاضی، سائنس، سماجی علوم اور کمپیوٹر کی تعلیم شامل تھی لہٰذا وزیر اعظم عمران خان یہ کہنے میں تو حق بجانب ہیں کہ مدرسوں کے فارغ التحصیل طلبہ کیلئے ملازمت کے مواقع کم ہیں تاہم وہ اس امر سے لاعلم ہیں کہ زیادہ تر مدارس نے اپنے نصاب میں عصری مضامین کو شامل کر رکھا ہے۔ اس کو تمام وفاق المدارس بورڈز کی ویب سائٹس سے چیک کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم کی ویب سائٹ کے مطابق مدارس کے ساتھ افہام و تفہیم سے یہ طے پایا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت دینی مدارس میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک کے عصری مضامین بتدریج متعارف کرائیں جائیں گے۔

سرکاری سکول تفریقی نظام کا دوسرا جزو ہیں۔ اگرچہ سرکاری سکولوں کے نصاب کا، جو بیشتر سستے پرائیویٹ سکولوں میں بھی پڑھایا جاتا ہے، ہر چند سال بعد جائزہ لیا جاتا ہے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے تعلیمی معیار پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ سال بہ سال ہونے والے سروے میں طلبہ کی صلاحیتوں میں تشویشناک حد تک کمی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر 2019ء کے قومی سروے کے مطابق سرکاری اور کم فیس والے نجی سکولوں کے درجہ پنجم کے 15 فیصد طلبہ اردو جملے نہیں پڑھ سکتے، 11 فیصد انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکتے اور آٹھ فیصد دو ہندسوں کی جمع تفریق نہیں کر سکتے۔ یہ سب تفصیلات ’ASER‘ کی سالانہ رپورٹوں میں درج ہیں۔ یونیورسٹیاں اپنے نئے داخلوں کے ناقص معیار پر نوحہ کناں ہیں اور ملازمتیں دینے والے یونیورسٹیوں کے گریجوایٹس کے معیار سے مطمئن نہیں ہیں۔ لہٰذا تعلیمی معیار کی پستی اور اس کے درست اسباب کا کھوج پاکستانی منصوبہ سازوں کے لئے اولین چیلنج ہے۔

توقعات

ان مسائل اور حکومت کی اس خواہش کو دیکھتے ہوئے کہ ایک ایسا نظام تیار کیا جائے جو مختلف درجوں کے طلبہ کے لئے یکساں مواقع مہیا کرے، توقع کی جا سکتی ہے کہ یکساں مواقع پیدا کرنے کی کوشش کو معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی اسکیموں کے ساتھ نتھی کیا جائے گا۔

یکساں مواقع مہیا کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس مقصد کے لئے ملک میں بہترین معیار دستیاب ہونا چاہئے۔ جیسا کہ وزیر اعظم خود اعتراف کرتے ہیں کہ انگلش میڈیم پرائیویٹ سکولوں کا معیار بہترین ہے، ان میں سے بعض غیر ملکی تعلیمی اسکیموں کی پیروی کرتے ہیں، جس میں برطانوی ’O‘ اور ’A‘ لیول یا انٹرنیشنل بیچلرز ڈگری شامل ہے۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ان سکولوں کے معیار کے پیش نظر نیا نصاب تشکیل دیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔

اس کے بجائے حکومت نے 2006ء میں وضع کردہ سرکاری نصاب کا انتخاب کیا۔ نئے نصاب میں بھی معیار تعلیم اور صلاحیتوں کی جانچ کاری کی سطح 2006ء کے نصاب جیسی ہی ہے لہٰذا خیر کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس نصاب سے سیکھنے کا معیار اتنا ہی غیر اطمینان بخش ہوگا جتنا آج کے سرکاری اسکولوں میں ہے۔

پہلے جیسے نصابی مواد کی موجودگی میں درسی کتب اور تدریسی معیار میں بھی بہتری کا امکان نہیں۔ مختصر یہ کہ انگلش میڈیم پرائیوٹ سکولوں کے تینوں میں سے بہترین معیار کو نہیں اپنایا گیا۔ اس کے علاوہ امتحانی نظام کو رٹا کلچر سے دور کرنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کی طرف اشارہ نہیں ملتا۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایلیٹ پرائیویٹ سکولوں میں نیا نصاب نافذ کیا جاتا ہے تو ان کے تعلیمی معیار کو کافی حد تک تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا (جاری ہے)۔

A H Nayyar
+ posts

مصنف قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ہیں۔