ڈاکٹر اے ایچ نیر
ترجمہ: ایف ایس
اسلامیات کا نیا نصاب
انگریزی، اردو، ریاضی، سائنس اور سوشل سٹڈیز کے نصابات 2006ء کے قومی نصاب سے چنداں مختلف نہیں، ان کے وہی معیارات ہیں جو پہلے تھے لیکن ایک نصاب جس میں واضح تبدیلیاں کی گئیں وہ اسلامیات کا نصاب ہے۔
جماعت اؤل اور دوم کے قومی نصاب 2006ء میں اسلامیات کے موضوعات جنرل نالج نامی کورس میں شامل کئے گئے تھے، جس کی وجہ سے غیر مسلم بچوں کو دقت کا سامنا تھا کیونکہ اس طرح وہ اسلامیات پڑھنے پر مجبور تھے۔
ایس این سی نے ان موضوعات کو جنرل نالج سے نکال کر اسلامیات کا ایک الگ مکمل کورس بنا دیا ہے۔ درجہ اؤل تا پنجم کے لئے اسلامیات کا نیا نصاب اب تک سب سے مشکل نصاب ہے۔ اس درجے میں مدارس میں پڑھائی جانے والی اسلامیات سے اگر اس نئے نصاب کا مقابلہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سرکاری اور نجی سکول مدرسوں سے بھی زیادہ دینی تعلیم دیں گے۔
مذکورہ نصاب میں بچوں کو عربی متن کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ان کے اردو ترجمے بھی یاد کرنے ہو نگے جبکہ مدارس میں اس درجے کے بچوں کو کچھ بھی زبانی یاد نہیں کرنا ہوتا۔ حدیث کی تعلیم 2006ء کے نصاب کا حصہ نہیں تھی۔ 2006ء کے نصاب میں صرف نویں دسویں جماعت کے طلبہ کو احادیث یاد کرنا ہوتی تھیں، وہ بھی اردو میں۔ دوسری طرف ایس این سی میں پرائمری گریڈ کے طلبہ 45 احادیث اردو ترجمے کے ساتھ یاد کریں گے۔
اس سے تو یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایس این سی تشکیل دینے والے اسلامیات کا مواد مرتب کرنے میں زیادہ پر جوش واقع ہوئے ہیں۔ اگر پرائمری سطح کی اسلامیات اتنی جامع ہے جہاں بچے خواندگی کا آغاز کر رہے ہوتے ہیں تو پھر اعلیٰ درجوں پر اس کی جامعیت کا عالم کیا ہو گا۔
پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم لازمی قرار دینے کا نوٹی فکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔ یہ تعلیم کس طرح مدرسہ نصاب سے مختلف ہوگی؟ اعلیٰ سطح کی اسلامی تعلیم کا مدرسہ نصاب سے متاثر ہونا لازمی امر ہے اسے بعید از قیاس قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے ایس این سی سکولوں کو مدرسہ بنانے کی کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔
ناظرہ قرآن کے بعد مدارس میں اگلا مرحلہ قرآن با ترجمہ پڑھنا ہے۔ اس کے بعد اگلے درجے میں قرآنی آیات کی تشریح کیلئے تفسیر اور تعبیر پڑھائی جاتی ہے اور اس کے بعد فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کا سبھی کو بخوبی علم ہے کہ اسلام کے مختلف فرقے علما کی انہی تشریحات کا نتیجہ ہیں۔ تمام مسالک قرآن کی مختلف تشریحات اور مختلف مکاتب فکر کے پیروکار ہیں اور ان کے اختلافات صدیوں سے برقرار ہیں۔ کیا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسلامیات کی تعلیم ان فرقہ ورانہ امور سے محفوظ رہے گی اور تعلیمی اداروں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا باعث نہیں بنے گی؟
آئین کا آرٹیکل 22 (1)
آئیں آئین کے آرٹیکل 22 (1) کو دیکھتے ہیں، جو بنیادی حقوق کے باب کا حصہ ہے۔ اس کا مقصد بطور خاص پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔ یہ آرٹیکل کہتا ہے:
”کوئی بھی فرد کسی تعلیمی ادارے میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے، یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے، یا مذہبی عبادت میں شریک ہونے کا پابند نہیں، اگر اس ہدایت، تقریب یا عبادت کا تعلق ان کے اپنے مذہب کے سواکسی اور مذہب سے ہو۔ “
اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ جو مضمون ہر مذہب کے طلبہ کے لئے لازمی ہو اس کی درسی کتب کا مواد کسی مخصوص مذہبی مواد پر مشتمل نہیں ہوسکتا ورنہ آئین کی اس شق کی خلاف ورزی ہو جائیگی۔ ایس این سی کے اردو اور انگریزی کورسز میں وہ ابواب شامل کر کے جو پہلے ہی اسلامیات کے نصاب کا حصہ ہیں غیر مسلم پاکستانی شہریوں کے اس بنیادی حق کی نفی کی گئی ہے۔
اردو کتب کو حمد و نعت سے شروع کیا گیا ہے اور ان میں سیرت النبیؐ کا باب بھی شامل ہے۔ تمام درجوں کی انگریزی کتب میں بھی سیرت النبیؐ کا ایک باب نصاب کا حصہ ہے، اس امر کے باوجود کہ اسلامیات کے نصاب کا خاصا حصہ سیرت پر مبنی ہے۔
اس کے علاوہ ابتدائے اسلام کی مقدس شخصیات پر بھی ایک خاص حصہ شامل نصاب ہے۔ جب آئینی حق کی اس خلاف ورزی کو چیلنج کیا گیا تو وفاقی وزارت تعلیم کے عہدیداروں نے اس غلطی کو درست کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے وہ خلاف ورزی سے بچنے کے حیران کن طریقے تجویز کرتے ہیں۔
وہ اساتذہ سے توقع کرتے ہیں کہ دینی ابواب کی تعلیم کے دوران غیر مسلم طلبہ کو کلاس چھوڑنے کا کہہ دیں گے (اور کلاس چھوڑکرکیا کیا جائے، یہ نہیں بتاتے)۔ وہ غیر مسلم طلبہ کو اس طرح کے ابواب سے متعلق امتحانی سوالات کے جوابات سے مستثنیٰ قرار دینے کا مشورہ دیتے ہیں، استثنیٰ حاصل کرنے کا یہ خطرہ بہت کم طلبہ مول لیں گے کیونکہ اس طرح آسانی سے غیر مسلموں کے خلاف ممتحن کے تعصب کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سرکاری عہدیدار اس امر کے باوجود کہ یہ موضوعات پہلے ہی اسلامیات کے خصوصی نصاب میں شامل ہیں، لازمی نصاب میں بھی اسلامی تعلیمات کو شامل کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ چاہے اس سے شہریوں کے آئینی حقوق کا احترام بھی جاتا رہے۔ اسی طرح اردو اور انگریزی نصاب میں ایمانداری اور سچائی وغیرہ کے موضوعات شامل ہیں، جن پر ماضی میں درسی کتب کے مصنفین مقدس اسلامی شخصیات کے حوالے سے لکھ چکے ہیں اور یہ کہانیاں بھی اسلامیات کا حصہ ہیں۔ غیر مسلم طلبہ کو یہ ابواب پڑھانا بھی آرٹیکل 22 (1) کی خلاف ورزی ہے۔ درسی کتب کے مصنفین کو یہ واضح ہدایت ہونی چاہیے کہ لازمی نصاب کی کتاب میں کسی بھی عقیدے سے متعلق کوئی مواد نہیں ہونا چاہئے۔
انسانی وسائل کا سوال
سرکاری عہدیداروں کے متعدد بیانات کے مطابق ایس این سی کی تشکیل کے دوران مدارس کے سربراہوں سے معاہدے بھی ہوئے۔ ایک معاہدے کے تحت مدرسہ کے طلبہ کو جماعت ہشتم سے بارہویں تک عصری مضامین انگریزی، ریاضی، سائنس اور سماجی علوم کے بورڈ امتحانات دینے اور پاس کرنا ہوں گے۔ یہ مدارس کے طلبہ کے لئے قطعاً بڑا چیلنج نہیں ہے۔
جب تک بورڈ کے ایسے امتحانات باقی ہیں جن میں امتحانی سوالات کے جوابات کیلئے محض یادداشت کی ضرورت ہوتی ہے، بغیر سمجھے زبانی یاد کرنے میں مدارس کے طلبہ کا کوئی ثانی نہیں۔ ایس این سی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے، اسی وجہ سے اس طرح کے مزید اداروں کی تشکیل کیلئے تحریک دی گئی ہے۔
مثال کے طور پر ہر سکول کو پرائمری نصاب کیلئے مدرسہ کے سند یافتہ قاری کی خدمات حاصل کرنا پڑیں گی جو طلبہ کو مدارس کے انداز میں ناظرہ قرآن پڑھا سکے۔ اسی طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بڑی جماعتوں میں مدارس کے طرز کی اسلامیات پڑھانے کیلئے ہر سکول کو مدرسہ کے سند یافتہ عالم کو ملازمت دینا ہو گی جو جامع مضامین کا احاطہ کرتی ہوئی اسلامیات پڑھائیں گے۔
ایک اور معاہدے میں انگریزی، سائنس، ریاضی اور سماجی علوم جیسے عصری نصاب کی تعلیم کیلئے سرکار کی جانب سے ہر مدرسہ کیلئے تین اساتذہ کی تقرری کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان اساتذہ کی تنخواہیں سرکاری خزانے سے ادا کی جائیں گی۔ ان اقدامات کے سنگین مضمرات ہیں۔ پاکستان اکنامک سروے 2019-20ء کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کچھ تخمینے درج ذیل ہیں:
پاکستان اقتصادی سروے 2019-20ء کے مطابق ملک میں 172,500 رجسٹرڈ پرائمری سکول ہیں اور دیگر سکول ملا کر کل تعداد 260,000 ہے۔ ہر سکول میں مدرسہ کے دو سند یافتہ اساتذہ کی ملازمت کا مطلب ہے سرکاری اور نجی سکولوں میں مدارس کے 520,000 فارغ التحیصل طلبہ کو ملازمت ملے گی۔
اس سے مدرسے کے فارغ التحصیل طلبہ کے لئے ملازمتوں کے خزانے کا منہ کھل جائے گا، جن میں سے بیشتر کو سرکاری خزانے سے معاوضہ دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ مدرسہ کے ان فارغ التحصیل اساتذہ سے اسکول کا ماحول بہت متاثر ہوگا۔ ملک میں مجموعی طور پر 1.72 ملین سکول اور کالج اساتذہ ہیں۔ ایس این سی پر عملدرآمد کی صورت میں 520,000 اضافی بھرتی کے بعد مدرسہ گریجویٹ اساتذہ پہلے سے موجود ٹیچر برادری کا ایک چوتھائی حصہ بن جائیں گے۔ ان کا نہ صرف سکولوں اور کالجوں کی تدریس پر اثر پڑے گا بلکہ تعلیمی ماحول پر بھی مدرسے کی سیاست کا اثر پڑ جائے گا۔ ایسے اثر و رسوخ کی مثال عالمی نہیں تو کم از کم جنوبی ایشیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔
وزارت تعلیم کے تخمینے کے مطابق ملک میں 35,000 رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدرسے ہیں۔ ایس این سی کے مطابق سرکاری تنخواہ پر تین اساتذہ کو حکومت ہر مدرسے میں غیر مذہبی مضامین کی تعلیم کے لئے ملازمت فراہم کرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کے باوجود ڈیڑھ لاکھ اضافی اساتذہ کو ملازمت دینا یا موجودہ اسکول اساتذہ ہی سے کام چلانا۔
مختصر یہ کہ ایس این سی کے تحت مدرسہ سسٹم کو زبردست فروغ ملا ہے۔ یہ سب صرف 30 لاکھ مدارسی طلبہ کو تعلیم کے مرکزی دھارے میں لانے کیلئے ہے۔ بدلے میں مدرسوں کو عصری مضامین کی تعلیم کے لئے معاوضے پر اساتذہ ملیں گے اور سرکاری اور نجی سکولوں میں مدارسی طلبہ کے لئے بڑی تعداد میں ملازمتیں کھلیں گی۔ انہیں مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی قیمت کثیر جہتی اور غیر متوقع اثرات سے بھرپور ہے۔
وفاقی حکومت نے خود کو آئینی دائرہ اختیار سے آگے بڑھا یاہے۔ تعلیم مکمل طور پر صوبائی دائرہ اختیار میں آتی ہے اور صوبے ہی آخر کار نوجوان نسل کی فکری ترقی کے ذمہ دار ہوں گے۔ لہٰذا انہیں آئین کی خلاف ورزی پر مبنی مشق کا پابند نہیں ہونا چاہئے، گو کہ صوبے ایس این سی کے مشاورتی عمل کا حصہ رہے ہیں۔