کوئٹہ (نامہ نگار) مرک ٹن ڈو کوئٹہ میں ایک بڑی فیکٹری ہے جس میں ہزار سے زائد (مرد و خواتین) ملازمین کام کرتے ہیں۔ فیکٹری ملازمین کے مطابق یہ فیکٹری سالانہ دس ارب روپے کماتی ہے۔
حال ہی میں اس فیکٹری سے تقریباً 200 ملازمین فارغ کئے گئے ہیں جو کئی سالوں سے فیکٹری میں کام کر رہے تھے۔ فارغ کئے گئے ملازمین کے احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ’روزنامہ جدوجہد‘سے گفتگو کرتے ہوئے فیکٹری کے ایک برطرف ہونے والے مزدور محمد اکمل نے کہا کہ ہمیں بغیر کسی وجہ نکالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: ”میں نے سات سال اس فیکٹری میں کام کیا ہے لیکن 2019ء میں ہم نے کمپنی والوں سے کچھ مسائل کو حل کرنے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے مسائل حل کرنے کے بجائے ہمیں بر طرف کر دیا“۔
مزدوروں کا مطالبہ یہ تھا کہ فیکٹری میں موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی جس کی وجہ سے صوبے کے مشکل حالات کی وجہ سے ایمرجنسی صورت حال میں گھر والوں سے رابطہ ممکن نہ رہات، اس سے بھی اہم یہ کہ 8 گھنٹے کام کی بجائے 12 گھنٹے کام لیا جا رہا تھا۔
ایک اور مزدورانعام اللہ نے ’روزنامہ جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیکٹری میں مزدوروں سے انتہائی نا روا سلوک کیا جاتا ہے اور استحصالی رویہ ایک معمول ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ورکرز کے موٹر سائیکلوں کو سٹینڈ میں کھڑا کرنا نہیں دیتے تھے، باہر سٹینڈ میں موٹر سائیکلوں کو کھڑی کرنے کی وجہ سے تین ملازمین کے موٹر سائیکل چوری ہوگئے اور ماہانہ 800 روپے موٹر سائیکل سٹینڈ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملازمین کو کسی قسم کی مراعات نہیں دی گئی، فیکٹری قوانین کے مطابق بونس سے بھی ملازمین کو محروم کیا گیا جبکہ کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم برطرف ملازمین 10 نومبر تک ڈیڈ لائن دیتے ہیں اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو ہم سخت اقدامات اٹھانے پر مجبور ہونگے جس میں احتجاجی کیمپ، بھوک ہڑتال، دھرنے اور فیکٹری کا گھیراؤ شامل ہونگے۔