طبقاتی جدوجہد ملتان
ہمارے استاد، دوست، کامریڈ اور ترقی پسند رہنما حیدر عباس گردیزی صاحب کرونا کا شکار ہونے کے بعد 7 نومبر کو ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کی وفات پاکستان کی ترقی پسند سیاست کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس سانحے کی وجہ سے ملتان کی سیاسی، ادبی اور علمی فضا گہرے رنج و الم اور سوز میں مبتلا ہے۔ آج طبقاتی جدوجہد نے حیدر گردیزی صاحب کی شکل میں اپنا عظیم اثاثہ کھو دیا ہے۔
ان کا تعلق ملتان کے ایسے سیاسی، علمی اور ادبی خانوادے سے تھا جو پاکستان کی ترقی پسند سیاست، علم فہمی اور ادبی خدمات میں اعلیٰ تدریس گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ ان کے والد محترم سید حسن رضا گردیزی صاحب ایک علمی شخصیت تھے جو سرائیکی، اردو اور فارسی زبان کے شاعر تھے اور جدید سرائیکی شاعری کے بانیوں میں سے تھے۔ ا س کے علاوہ وہ ملتان کا ادبی اور ثقافتی حوالہ تھے۔ ان کے سسر، سید قسور رضا گردیزی صاحب پاکستان کی ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور عہد ساز سیاسی و سماجی شخصیت تھے۔ انہوں نے میاں افتخار الدین اور مولانا بھاشانی کے ساتھ ترقی پسند سیاست میں حصہ لیا۔ وہ بھاشانی کے ساتھ پارٹی کے نائب صدر کے طور پر کام کرتے رہے اور نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ انہوں نے جاگیر دارانہ گھرانے کا چشم و چراغ ہونے کے باوجود محنت کش طبقے کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کیں اور قربانیاں دیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بائیں بازو کے زیادہ تر رہنما جب بھی ملتان تشریف لاتے تو ہمیشہ اس گھرانے کے مہمان بنتے۔ بلاشبہ یہ گھرانہ ترقی پسند سیاست کا درخشاں ستارہ ہے۔
حیدر عباس گردیزی صاحب کی تربیت بچپن سے ہی سیاسی اور ادبی فضا میں ہوئی۔ انہوں نے گریجویشن ایف سی کالج لاہور سے کی۔ وہ عہد جوانی سے ہی ترقی پسند سیاست کے متحرک کارکن رہے کیونکہ ان کی سیاسی تعلیم اس عہد کے بڑے ترقی پسند رہنماؤ ں کے زیر سایہ ہوئی۔ وہ نوجوانی میں سوشلسٹ پارٹی آف پاکستان، این اے پی اور میر بزنجو کی پی این پی میں کام کرتے رہے۔ ضیا دور میں انہوں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ وہ ملتان میں ایم آر ڈی تحریک کے سرگرم رہنما تھے۔ اسی تحریک کے دوران ہی انہوں نے ٹاؤن ہال ملتان میں سینکڑوں لوگوں کے سامنے ضیا کو غدار قرار دیا جس کی وجہ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔ مارشل لا عدالت میں انہوں نے آرمی آفیسر کے اعزاز میں کھڑے ہونے سے انکار کر دیا اور اپنے بیان میں کہا کہ اصل غدار تو ضیا الحق ہے جس نے وزیر اعظم کا قتل کیا اور ملک کا آئین توڑا۔ لندن میں جلا وطنی کی وجہ سے ان کی ملاقات پہلی دفعہ بے نظیر بھٹو سے ہوئی اور کافی عرصے تک ملکی سیاسی معاملات کے حوالے سے ان کی آپس میں خط و کتابت جاری رہی۔ 1990ء میں جس دن پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت برطرف ہوئی اسی دن انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان پیپلز پارٹی کے بنیادی انقلابی سوشلسٹ نظریات کی بنا پر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی وفاقی کونسل اور پالیسی پلاننگ سیل کے ممبر رہے اور دیگر اہم عہدوں پر فائض رہے۔ اس کے بعد کے عرصے میں طبقاتی جدوجہد کے پلیٹ فارم سے انقلابی سوشلزم کے نظریات کو مزدوروں، طالب علموں اور کسانوں تک پہنچانے اور ان طبقات کو سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عملی جدوجہد میں منظم کرنے کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔
سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی لائبریری میں موجو د تاریخ، فلسفے اور ادب کی ضخیم کتابیں ان کی علمی حوالے سے وسیع شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی شخصیت مارکس، اینگلز، لینن، ٹراٹسکی، سارتر، جارج برناڈ شا، جارج آرویل، اقبال احمد، حمزہ علوی، اروندھتی روئے اور ڈاکٹر لال خان جیسی ترقی پسندانہ اور انقلابی شخصیات سے متاثر تھی۔ جہاں دوستوں کی محفلیں سجتیں اور دل کو موہ لینے اور شعور کو بیدار کر دینے والی علمی، ادبی، فلسفیانہ اور ماہرانہ طرز گفتگو میں حیدر عباس گردیزی صاحب ید طولیٰ رکھتے تھے۔ حیدر عباس گردیزی کی شخصیت تہذیب و شائستگی، رکھ رکھاؤ اور ملنساری کے اعلیٰ درجے پر فائض تھی۔ طرز تخاطب میں ملائم اور مشفقانہ رویہ ان کی شخصیت کا ایک اہم اور بنیادی خاصہ تھا جس سے محفل میں موجو د ہر سامع کے علم و دانش میں نہ صرف اضافہ ہوتا تھا بلکہ جدوجہد کی ایک نئی امنگ بیدار ہوتی تھی۔ اردو شاعری سے خاص طور پر ان کی رغبت اور اس میں موجود معنویت کی گہرائی کو پرکھنے اور نئی نسل تک اس کو منتقل کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
ان کی شخصیت کے بارے میں ان کے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر احمد ارسلان نے لکھا تھا کہ حیدر عباس گردیزی اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ جمہوری اقدار کے ذریعے جابرانہ طرز حاکمیت کو فلاحی ریاست میں بدلا جا سکتا ہے اور جمہوری قوتوں کوچھوٹے چھوٹے نان ایشوز پر سیاست کرنے کی بجائے حقیقی جمہوریہ کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے کیونکہ قومیت کے سوال سے لے کر حقیقی صوبائی خود مختاری اور خواتین و اقلیتوں کے خلاف مروجہ امتیازی قوانین کے خاتمے سے ہی ایک بہتر سماج کی داغ بیل ڈالی جا سکتی ہے۔ پاکستان کوتمام قومیتوں پر مبنی ایک رضاکارانہ جمہوری فیڈریشن میں ڈھلنا چاہیے۔ ایک ایسی جمہوریہ جو دولت کی منصفانہ تقسیم، جدید زرعی اصلاحات اور صنعت کاری کا مرکز بنے۔ وہ سرمایہ داری کے جکڑ سے آزاد، پائیدار اور ماحول دوست ترقی کے آرزو مند تھے اور عالمی سرمایہ داری (جس نے دنیا بھر کی اقوام، ان کی زبانوں اور ثقافتی ورثے کو برباد کر کے رکھ دیا ہے) کے سخت ناقد تھے اور اس لئے عالمی انقلاب کے داعی اور مبلغ تھے۔
ان کی وفات پر گہرے رنج و الم کے ساتھ ساتھ ہم ان کی انقلابی جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کرنے تک کا عہد بھی کرتے ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی
جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مر جاتے
دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے
سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے
ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے
جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی