لاہور (جدوجہد رپورٹ) نیٹو کے سربراہ نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کی نیٹو کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ یہ انتباہی بیان انہوں نے امریکہ کی جانب سے افغانستان سے ایک بڑی تعداد میں فوجی انخلا کے فیصلہ کے بعد دیا ہے۔
اس وقت نیٹو کے پاس درجنوں ممالک کی بارہ ہزار سے بھی کم افواج موجود ہیں جو افغان سکیورٹی اداروں کی تربیت میں مدد کر رہی ہیں۔ نیٹو افواج میں نصف سے کم تعداد میں امریکی فوجی موجود ہیں لیکن تیس ممالک کا یہ اتحاد نقل و حمل، ہوائی مدد، رسد اور دیگر امداد کیلئے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نیٹو امریکی مدد کے بغیر آپریشن جاری رکھ پائے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے منگل کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا کہ ”اب ہمیں ایک مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہم افغانستان میں تقریباً بیس سال سے موجود ہیں اور نیٹو کا کوئی اتحادی ضرورت سے زیادہ طویل عرصے تک یہاں نہیں رہنا چاہتاہے۔ بہت جلد یا غیر منظم طریقے سے افغانستان چھوڑنے کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ اب بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردوں کیلئے ہمارے ہم وطنوں پر حملوں کی منصوبہ بندی اور عملی جامہ پہنانے کا ایک پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔ داعش شام اور عراق میں ناکامی کے بعد دہشت گردی کی خلافت کو افغانستان میں دوبارہ تشکیل دے سکتا ہے۔
افواج کے انخلا کا امریکی فیصلہ پینٹاگون کے اعلیٰ عہدوں پر ٹرمپ کے ان وفاداروں کی تعیناتی کے چند دن بعد آیا، جو جنگ زدہ علاقوں میں فوجیوں کی مسلسل موجودگی سے ناخوش تھے۔ متوقع منصوبوں کے تحت آئندہ سال پندرہ جنوری تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد نصب ہو جائے گی اور افغانستان میں پچیس سو امریکی فوجی رہ جائینگے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ فوجی رہنماؤں کو انخلا سے متعلق بتایا گیا تھا لیکن یہ ایک انتظامی حکم جاری ہے، جو ابھی تک کمانڈروں کے حوالے نہیں کیا گیا۔
امریکی قیادت میں قائم اتحاد (نیٹو) نے 2003ء میں عالمی سلامتی کی کوششوں کے نام پر چارج سنبھالنے کے دو سال کے بعد القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں طالبان حکومت کو بے دخل کر دیا تھا۔ 2014ء میں نیٹو نے افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت کا عمل شروع کر دیا تھا، لیکن آہستہ آہستہ امن معاہدے کے مطابق نیٹو افواج کا انخلا شروع کیا گیا۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ”امریکی افواج کی کمی کے باوجود نیٹو افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کیلئے اپنا مشن جاری رکھے گا۔ ہم 2024ء تک افغانستان کی مالی اعانت کیلئے بھی پر عزم ہیں۔“
افغانستان میں نیٹو کا سکیورٹی آپریشن اسکا اب تک کا سب سے بڑا اقام ہے۔ اس کا آغاز فوجی اتحاد کے بعد باہمی دفاعی شق، جسے آرٹیکل پانچ کے نام سے جانا جاتا ہے، پر پہلی مرتبہ ایکشن کیا گیا۔ نیویارک اور واشنگٹن پر نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کی حمایت میں تمام اتحادی آرٹیکل پانچ کے تحت متحرک ہوئے۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ”یورپ اور اس سے باہر کے ہزاروں فوجی افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے اور ایک ہزار سے زائد نے اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ایک ساتھ افغانستان گئے اور اب ہمیں مربوط اور منظم انداز میں اسے چھوڑنا چاہیے۔ مجھے اعتماد ہے کہ اپنی حفاظت کیلئے تمام اتحادی اپنے عزم کو پورا کریں گے۔“
امریکہ اب تک نیٹوکا سب سے بڑا اور با اثر اتحادی ہے۔ یہ دوسرے تمام ممالک کے مشترکہ دفاع سے زیادہ دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ ٹرمپ کے عہدہ صدارت پر رہنے کی مدت نے اس تنظیم کیلئے خاص طور پر ایک پریشان کن وقت کی نشاندہی کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دفاعی اخراجات سے دیگر رہنماؤں کو بھی روکا اور ایران جوہری معاہدے اور فضائی نگرانی جیسے ان سکیورٹی معاہدوں سے دستبرداری اختیار کر لی جنہیں کینیڈا اور یورپی اتحادی اپنی سلامتی کیلئے اہم سمجھتے تھے۔