فاروق سلہریا
پلوامہ حملہ، جس نے پاکستان اور ہندوستان کو چندہفتے قبل جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا، عادل احمد ڈار نامی نوجوان نے کیا تھا۔ میڈیا کے مطابق عادل ڈار افغانستان میں امریکہ کے خلاف طالبان کی ’کامیابی‘ سے متاثر تھا۔ حملے سے قبل جو ویڈیو عادل ڈار نے جاری کی اس میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ خودکش حملہ آور طالبان سے کافی متا ثر تھا۔
اس سے کیا یہ واضح نہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا کی صورت میں بنیاد پرستوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہوں گے جس طرح سویت انخلا کے بعد ہوئے اور دنیا دہشت گردی کی ایک نئی لہر کی لپیٹ میں آ جائے گی؟ اور کیا افغانستان میں خانہ جنگی میں اضافہ نہ ہو گا؟
کوئی کتنا بھی امید پرست کیوں نہ ہو ان سوالوں کا جواب اگر حقائق کی روشنی میں دے تو اثبات میں ہی دے گا۔ یہ بات درست ہے کہ امریکی انخلا سے افغان خانہ جنگی ختم نہ ہو گی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی کو ایک نیا ولولہ اور حوصلہ ملے گا۔ البتہ اس مضمون کا موقف یہ ہے کہ افغان امن کے لئے امریکی انخلا ضروری ہے کیونکہ انخلا کے نتیجے میں ایسے حالات بن پائیں گے جو امن کا راستہ بحال کر سکیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان بطور مزاحمتی تحریک جو اپیل رکھتے ہیں اس میں کمی آئے گی۔ دوم اس بات کا امکان صفر کے برابر ہے کہ طالبان بائیس سال پہلے کی طرح کابل پر چڑھ دوڑیں گے۔ رہی بات خانہ جنگی کی تو امریکی فوجوں کی موجودگی کے باوجود وہ جاری ہے۔
مندرجہ بالا موقف کو ثابت کرنے سے پہلے البتہ ضروری ہو گا کہ پہلے اس ساری بحث کا مختصر سیاق و سباق پیش کر دیا جائے۔
گیارہ ستمبر اور ”تاریخ کا آغاز“
امریکی صدر ٹرمپ کے بقول یہ جنگ امریکہ کو دو ٹریلین ڈالر میں پڑ چکی ہے۔ سالانہ اس جنگ پر امریکہ پینتالیس ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اس جنگ کی مالی قیمت البتہ اس نقصان کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو انسانی جان کے زیاں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ گیارہ ستمبر سے اب تک اکتیس ہزار افغان شہری ہلاک ہو چکے ہیں (افغان فوجیوں کی تعداد معلوم نہیں کیونکہ سرکاری طور پر چھپائی جاتی ہے) ۔2300 امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ افغانستان بارے مین اسٹریم بیانیہ، وہ صحافتی ہو یا دانشورانہ، گیارہ ستمبر سے شروع کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ امریکی سامراج کی منافقت پر پردہ ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر قبل از طالبان عہد کی کبھی بات ہو بھی تو اتنا ہی ےاد دلایا جاتا ہے کہ افغانستان میں ”سوویت کٹھ پتلی حکومت“ بہت ظالم تھی۔ یہ ذکر نہیں کیا جاتا کہ اس حکومت کے خاتمے اور طالبان کے کابل پر قبضے کے درمیان لگ بھگ تین سال تک وہ نام نہاد مجاہدین گروہ کابل پر قبضے کے لئے لڑتے رہے جنہیں سی آئی اے نے پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر تیار کیا تھا۔ ان ”مجاہدین “ نے نہ صرف کابل بلکہ پورے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ عورتوں اور لڑکوں کا اغوا ایک معمول بن گیا۔ یہ دور اس قدر بھیانک تھا کہ ”مجاہدین“ سے ستائے افغان عوام طالبان کو بھی نجات دہندہ سمجھنے لگے۔
گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ نے انہی ”مجاہدین“ کو دوبارہ افغانستان پر مسلط کر دیا۔ ہاں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ان مجاہدین کی داڑھیاں خط کرا دیں اور ان کو سوٹ ٹائی میں ملبوس کرا دیا گیا۔ انکو مزید قابل قبول بنانے کے لئے بھیڑیوں کے اس غول کا سرغنہ ایک لومڑی کو بنا دیا گیا جس کا نام حامد کرزئی تھا۔
اس غول میں ایک اہم ٹولہ شمالی اتحاد تھا۔ جس کے رہنما احمد شاہ مسعود کو گیارہ ستمبر کے بعد گاندھی اور چے گویرا کا مرکب بنا کر پیش کیا جاتا ہے(گیارہ ستمبر سے چند دن قبل اسے طالبان اور القاعدہ نے ہلاک کروا دیاتھا)۔ نوے کی دہائی میں شمالی اتحاد کی اصل لڑائی تھی گلبدین حکمت ےار سے ‘جو اُن دنوں جماعت ِاسلامی اور اسلام آباد کا بھی ہیرو تھا۔ کچھ عرصہ قبل اس حکمت ےار کو بھی کابل میں خوش آمدید کہا گیا اور وہ کسی فاتح کی طرح شہر میں داخل ہوا۔
اگر ماضی کے یہ خونی اور بدنام کردار امریکی قبضے کا سیاسی چہرہ تھے تو این جی اوز اس کا ترقیاتی نقاب تھیں۔گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان کو ایک نیو لبرل لیبارٹری بنا دیا گیا۔ اسی کی دہائی سے سامراجی اداروں کی سوچ یہ رہی ہے (یا اِس سوچ کو تقویت دی گئی ہے )کہ تیسری دنیا میں حکومتی ادارے بد عنوان ہوتے ہیں لہٰذا ترقیاتی منصوبے این جی اوز کو چلانے چاہئیں۔
لیکن افغانستان میں یہ این جی اوز حکومتی وزارتوں اور اداروں سے کئی گنا زیادہ بدعنوان ثابت ہوئیں۔ 2013ء تک نام نہاد عالمی برادری نے افغانستان کی تعمیرِ نو کیلئے نوے ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم انہتر ارب ہی دئےے گئے۔ اس میں سے بھی ستاون ارب ڈالر خرچ ہو سکے ۔ ان ستاون ارب کا بھی نام و نشان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
ایسا نہیں کہ کچھ نہیں ہوا۔ راقم متعدد بار افغانستان جا چکا ہے۔ تعمیر کا کام ہوا ہے۔ چار ہزار کلومیٹر لمبی سڑکیں تعمیر ہوئی ہیں۔پرائمری تعلیم میں قابلِ ذکراضافہ ہوا ہے©: ستر لاکھ بچے اسکول جا رہے ہیں۔ ساڑھے تےن ہزار اسکول تعمیر کیے گئے ہیں۔ تیس فیصد لوگوں کے پاس اب بجلی کی سہولت موجود ہے۔ پچاسی فیصد لوگوں کے پاس صحت کی بنیادی سہولت موجود ہے۔
لیکن اس کے باوجود افغانستان آج بھی دنیا کا غریب ترین ملک ہے جہاں اوسط زندگی دنیا میں کم ترین سطح پر ہے۔ کابل ہی کی مثال لیجئے۔ اس شہر پر بظاہر ڈھائی ارب ڈالر خرچ کیے گئے لیکن آج بھی اہم سڑکیں اور گلیاں کچی ہیں۔ اکثر محلوں میں لوگ پانی کو ترستے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر ہر طرف ہیں۔ دریائے کابل ایک گندہ نالہ بن کے رہ گیا ہے۔
ایسا کیوں؟
افغانستان میں تعمیرِ نو کی ناکامی کو اکثر بد عنوانی سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اس بیانیے کو مزید تقویت نو سال پہلے ملی جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے افغانستان کو دنیا کا دوسرا بدعنوان ترین ملک قرار دیا۔ بدعنوانی بلا شبہ تھی لیکن اس ناکامی کی وجہ ترقی کا وہ ماڈل تھا جو افغانستان پر مسلط کیا گیا یعنی ترقی اور تعمیر کے منصوبے این جی اوز کے حوالے کر دینا۔ ان میں کچھ این جی اوز تو امریکہ کے جنگی جہازوں میں سوار ہو کر آئی تھیں۔ کچھ طاقتور اور چالاک افغان مڈل کلاس افراد نے بنائیں۔ امداد کا اسی فیصد ان این جی اوز کو دیا گیا نہ کہ افغان حکومت کو۔
پاکستان کے لوگوں کیلئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہو گی کہ افغان این جی اوز حکومتی اداروں سے کہیں زیادہ بدعنوان نکلیں۔بعض عالمی این جی اوز تو خود چیخ اٹھیں کہ اتنی کرپشن!
پھر نو سال پہلے فیصلہ ہوا کہ این جی اوز کی بجائے امداد حکومتی اداروں کو دی جائے۔ وہاں احتساب کا کچھ تو نظام موجود ہوتا ہے۔ لیکن صرف این جی اوز کو الزام دینا بھی غلط ہو گا۔ عالمی امداد کی ملٹرائزیشن بھی ایک وجہ بنی۔ مطلب یہ کہ جو امداد آئی اس کا پچاس فیصد تو امریکہ کا محکمہ دفاع لے اڑا۔ امریکی افواج ترقیاتی منصوبے افغان عوام کی ضروریات کے پیشِ نظر شروع کرنے کی بجائے اس بنیاد پر بناتیں کہ طالبان کی مزاحمت کو توڑا جا سکے۔
مندرجہ بالا بحث کا مقصد یہ نہیں کہ اگر امریکہ مجاہدین کو نہ لاتا یا ڈھنگ سے تعمیرِ نو کرتا تو آج افغانستان میں امن ہوتا اور امریکی قبضہ کامیابی سے چل رہا ہوتا۔جیسا کہ عمومی لبرل موقف ہے۔ مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ قبضے ترقی دینے اور جمہوریت لانے کے لئے نہیں ہوتے۔ اسی لئے وہ جمہوری اور عوامی قوتوں کی بجائے جنگی سالاروں، بدمعاشوں اور مافیا کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ دوم قبضے مزاحمت کو جنم دیتے ہیں۔ اگر پوری دنیا نے مل کر افغانستان کو جہنم نہ بنایا ہوتا تو آج ممکن ہے مزاحمت کا چہرا طالبان کی بجائے ترقی پسند قوتیں ہوتیں۔ سوم افغانستان سے ایک مرتبہ پھر یہ سبق ملتا ہے کہ سامراجی قبضوں کا دور گزر چکا ہے۔ ویت نام نے جو مثال قائم کی تھی عراق اور افغانستان نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ امریکہ کی شکست کا البتہ یہ مطلب نہیں کہ طالبان کابل پر چڑھ دوڑیں گے جیسا کہ پاکستان کے اکثر حلقے سوچ رہے ہیں۔
طالبان کی جیت مشکل ہے!
سیاست میں کبھی بھی امکانات کی نفی نہیں کرنی چاہئے۔ تاریخ کم از کم یہی سبق دیتی ہے۔ طالبان افغانستان کے دوبارہ حکمران بن جائیں اس امکان کو حتمی طور پر رد نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے باوجود اگر درست بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ انکی کامیابی کا امکان صفر سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ہم یہ بات مندرجہ ذیل بنیادوں پر کہہ سکتے ہیں۔
اول 1997ء میں جب طالبان نے پاکستان کی مدد سے کابل پر قبضہ کیا تو عالمی حالات یکسر مختلف تھے۔ امریکہ کو یا تو کوئی دلچسپی نہ تھی کہ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے یا بعض رپورٹس کے مطابق واشنگٹن درپردہ طالبان کا حامی تھا کیونکہ سعودی عرب‘ ایران کی وجہ سے طالبان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اب صورت حال مختلف ہے۔ کابل پر طالبان کا قبضہ براہِ راست امریکی شکست تصور ہو گا۔ امریکہ اس صورت ِحال سے نپٹنے کی کوشش کرے گا۔ موجودہ امریکہ طالبان مذاکرات میں اختلاف اسی بات پر ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے انخلا کو اس طرح پیش نہ کیا جا سکے کہ وہ سامراج کی شکست دکھائی دے۔
دوم روس نوے کی دہائی میں زبردست انتشار کا شکار تھا۔ اب وہ افغان معاملات میں گرمجوشی دکھا رہا ہے۔ ایک طرف اگر روس امریکہ کی شکست چاہتا ہے تو دوسری طرف وہ اسلامی بنیاد پرستی کے چیچنیا پر اثرات بارے بھی بے خبر نہیں۔ اسی طرح ایران، بھارت، سعودی عرب کا کردار بھی اب کی بار مختلف ہو گا۔ آلِ سعود امریکہ کی ناراضی کا خطرہ مول لے کر طالبان کی درپردہ حمایت بھی نہ کرے گا۔ بھارت اور ایران زیادہ متحرک کردار ادا کریں گے۔ خود پاکستان اب کی بار دنیا بھر کے ریڈار پر ہو گا۔ اس وقت واشنگٹن کے خلاف جو بلیک میلنگ طاقت پاکستان کے پاس ہے‘ امریکی انخلا کے بعد وہ ختم ہو جائے گی۔ اسے نہ پاکستانی راہداری کی ضرورت ہو گی نہ اپنی افواج کے تحفظ کے لئے اسلام آباد کا تعاون درکار ہو گا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ افغان عوام اور دیگر مسلح گروہ اب کی بار طالبان کے خلاف پہلے سے زیادہ مزاحمت کریں گے۔ طالبان کے بارے میں اب ان کے کٹر حامیوں کے علاوہ کسی حلقے میں کوئی خوش فہمی نہیں پائی جاتی۔ افغان فوج دراصل شمالی اتحاد کی دوسری شکل ہے۔ امریکی انخلا کے بعد لڑائی نسلی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
گویا اب کی بار طالبان کو مختلف صورت حال کا سامنا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے طالبان کا ایک حصہ امریکہ سے صلح کر لے۔ کسی آئندہ سیٹ اپ کا حصہ بن جائے جبکہ دیگر کچھ دھڑے اپنی ہی قیادت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے خون خرابہ جاری رکھیں۔ طالبان اور ڈرگ مافیا (اور دونوں فرسٹ کزن ہیں) کے لئے افغانستان میں جنگ ایک معیشت کا نام بھی ہے۔ داعش کی موجودگی کے باعث بھی امریکی انخلا کے بعد فوری امن کی بات مشکل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود امریکی انخلا کے حق میں کچھ دلائل قابل ِ غور ہیں۔
افغانستان میں اٹھارہ سالہ امریکی فوجی موجودگی کا ریکارڈ یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ امن قائم نہیں کر سکتا۔ الٹا امریکی حملے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ صرف افغانستان کے ایک قابلِ ذکر حصے پر طالبان دوبارہ قابض ہیں بلکہ ایک وقت پر تو وہ سوات اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات پر بھی حکومت کر رہے تھے۔ لیکن امریکی انخلا کے بعد طالبان کا یہ دعویٰ کہ وہ کافرانہ قبضے کے خلاف جہاد کر رہے ہیں‘ بے معنی ہو جائے گا۔ طالبان کے لئے اسلام آباد کی حمایت بہت مشکل ہو جائے گی۔ پاکستانی وزیر خارجہ منافقانہ انداز میں پہلے ہی امریکہ کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ جلدی میں انخلا نہ کرے۔ انخلا کے بعد پاکستان پر عالمی دباﺅ بڑھ جائے گا۔ آخری اور اہم ترین بات یہ کہ افغان عوام کی اکثریت امریکی فوجوں کا انخلا چاہتی ہے۔ اکیسویں صدی میں سامراجی قبضے ناقابلِ قبول ہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔