دنیا

کسان کل ’بھارت بند‘ کریں گے، 11 اپوزیشن جماعتوں کی حمایت

حارث قدیر

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی سرحدوں پر کسانوں کا احتجاج بارہویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔ کسان تنظیموں نے کسان مخالف قوانین کے خاتمے کیلئے اس تحریک کے اگلے مرحلے میں 8 دسمبر کو (یعنی کل) پورے بھارت میں مکمل ہڑتال ’بھارت بند‘کا اعلان کرتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتوں سے حمایت کی اپیل کی تھی۔ کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں سمیت گیارہ بڑی اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے 8 دسمبر کی مکمل ہڑتال کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

سونیا گاندھی (صدر انڈین نیشنل کانگریس)، ایم کے سٹالن (صدر ڈی ایم کے)، شرد پاوار (صدر این سی پی)، تیجسوی یادو (آر جے ڈی)، فاروق عبداللہ (چیئرمین پی اے جی ڈی)، اکھیلیش یادو (صدر ایس پی)، سیتا رام یچوری (جنرل سیکرٹری سی پی آئی ایم)، ڈی راجا (جنرل سیکرٹری سی پی آئی)، دیپانکر بھٹا چاریہ (جنرل سیکرٹری سی پی آئی ایم ایل)، دیبابراتا بسواس (جنرل سیکرٹری اے آئی ایف بی) اور منوج بھٹا چاریہ (جنرل سیکرٹری آر ایس پی) کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہم سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک بھر کی مختلف کسان تنظیموں کے زیر اہتمام بھارتی کسانوں کے حقوق کیلئے جاری جدوجہد پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور 8 دسمبر کو حال ہی میں نافذ ہونے والے کسان مخالف قوانین کے خاتمے کیلئے ’بھارت بند‘ کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ”یہ نئے زرعی قوانین پارلیمنٹ میں ایک منظم بحث اور ووٹنگ کو روک کر جمہوری روایات کو مسخ کر کے منظور کئے گئے ہیں، ان قوانین کے نفاذ سے بھارت میں غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد بھارتی زراعت اور کسانوں کو تباہ کرنا ہے۔ کم سے کم سپورٹ پرائس کے خاتمے سے بھارتی زراعت ملٹی نیشنل اور مقامی کارپوریٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مرکزی حکومت جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسانوں کے جائز مطالبات کو پورا کرے۔“

کسانوں تنظیموں نے مختلف ریاستوں سے مزید کسانوں کو احتجاج میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مطالبات پر کسی قسم کا کمپرومائز نہ کرنے اور تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے علاوہ کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ بننے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

کسان نمائندوں اور حکومت کے مابین اب تک مذاکرات کے پانچ دور مکمل ہو چکے ہیں، آئندہ اجلاس 9 دسمبر کو ہو گا۔ حکومت قوانین میں ترمیم کرنے پر آمادہ ہے جبکہ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تینوں قوانین کو واپس لیا جائے۔

واضح رہے کہ کسانوں نے 26 نومبر کو بھارتی حکومت کی جانب سے تین نئے زرعی قوانین متعارف کروانے کے خلاف ’دہلی چلو‘ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ دہلی میں داخل ہونے سے پولیس نے کسانوں کو روکنے کیلئے بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی لگائی گئی تھی۔ پولیس نے کسانوں کو روکنے کیلئے واٹر کینن، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا لیکن ہزاروں کسانوں کو پولیس روکنے میں نا کام ہو گئی۔ کسانوں نے دہلی کو شمالی ریاستوں سے ملانے والی تمام بڑی اور چھوٹی شاہرات کو بند کر کے احتجاجی دھرنا دے دیا تھا۔ یہ دھرنا اب بارہویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔

کسانوں کے احتجاج کی حمایت میں بھارت کی مختلف ریاستوں سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے منعقد کئے جا رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے فنکاروں نے بھی کسان احتجاج کے حق میں مختلف گیت تیار کئے ہیں اور معاشرے کے مختلف مکاتب فکر اور ٹریڈ یونینوں نے بھی کسانوں کے اس احتجاج کی حمایت کر رکھی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔