عباس عارفی
ترجمہ: ایف ایس
افغان اخبار ’اطلاعات روز‘ کے امن رپورٹر عباس عارفی نے کابل کے تھنک ٹینک ’افغانستان ریسرچ اینڈ ایویلیواشن یونٹ‘ (AREU) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر اورزلہ نعمت کے ساتھ افغان امن مذاکرات میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں ان کی رائے جاننے کیلئے بات چیت کی۔
اورزلہ نعمت نے لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) سے پی ایچ ڈی کی۔ خواتین حقوق کے لئے ایک عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ افغان امور پر تجزئے کے لئے عالمی میڈیا میں بھی اکثر مدعو کی جاتی ہیں۔
12 ستمبر کو19 برسوں میں پہلی مرتبہ افغان حکومت کے امن مذاکرات کار قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان نمائندوں کے ساتھ شراکت اقتدار پر تبادلہ خیال کے لئے بیٹھے لیکن دونوں فریق ایجنڈا طے کرنے اور تنازعات حل کے معاملے میں الجھے رہے۔ دریں اثنا افغانستان میں بد امنی بڑھتی جا رہی ہے۔ نام نہاد امن مذاکرات اور ملکی صورت حال بارے ان سے گفتگو (اقتباسات) کا ترجمہ قارئین ’روزنامہ جدوجہد‘ کے لئے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
ڈاکٹر اورزلہ نعمت وقت دینے کا شکریہ۔ امن مذاکرات میں ثالثی فریق کے کردار کے بارے میں آپ کا کیا نکتہ نظر ہے؟
اورزلہ نعمت: پہلے تو میں یہ کہنا چاہوں گی کہ افغان انٹرا مذاکرات بلا شبہ پیچیدہ اور مشکل ہیں۔ فریقین نے بات چیت کا آغاز کر دیا ہے، تاہم ایک ماہ گزرنے کے بعد انھوں نے تاحال مذاکرات کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں کیا۔ بہر حال بات چیت کے آغاز پر ہی فریقین نے امن مذاکرات میں ثالث یا سہولت کار سے اجتناب کرنے پر اتفاق کیا۔
آپ کے خیال میں انہوں نے مذاکراتی عمل میں ثالث یا سہولت کار کے کردار کی مخالفت کیوں کی؟
اورزلہ نعمت: افغانستان کے امن عمل میں ثالث کے کردار کی ضرورت اور حساسیت پر تبادلہ خیال کرنے سے پہلے آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ موجودہ صورتحال کیسے وجود میں آئی۔ افغانستان میں تنازعات چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔ 2001ءکے بعد کا دور اور افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی، موجودہ امن مذاکرات کی بنیاد ہے، جو ہمیں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے افغان حملے سے متعلق ان کے پہلے بیان کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ”اب کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں ، آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں، یا دہشت گردوں کے ساتھ“۔ یہ افغانستان اور دنیا کے لئے ایک واضح پیغام تھا۔
یہ 2001ءکے بعد تمام سیاسی اور معاشی اتحادوں کا ایک بنیادی عنصر ہے، لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ مزید اتحاد بنیں گے، یہاں تک کہ وہ تین ممالک جنہوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، نائن الیون حملوں کے بعد جلد اس سے دستبردار ہو گئے تھے۔ جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو طالبان اپنے گڑھ چھوڑنے اور وہاں سے فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ وہ غیرمعمولی پسپائی کے بعد غائب ہوگئے۔
اس کے نتیجے میں اس وقت دوسرے گروہوں نے اس خلا کو پ±ر کیا۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان، خطے اور دنیا میں کسی نے بھی حقیقی طور پر طالبان کا ساتھ نہیں دیا۔ مثال کے طور پر امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود ایران نے افغان امور سے متعلق باہمی افہام و تفہیم کے باعث انسداد دہشت گردی کے عالمی اتحاد کی حمایت کی۔ ایران افغانستان میں طالبان اور دہشت گردی کو اپنا اتحادی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
افغانستان میں جنگ کی پیچیدگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے، ہمیں یقینی طور پر اس چیز کی اشد ضرورت ہے جس کو روایتی طور پر ”نیک نیت تیسرا فریق“ کہا جاتا ہے۔ ثالث بلا شبہ ضروری ہے لیکن ثالثی متنازع ہوگئی ہے کیونکہ زیادہ تر افراد ، ممالک اور عالمی رہنما اس تنازع کو اس طرح نہیں دیکھتے ہیں کہ ”افغانوں کا قتل“ ختم ہونا چاہئے۔ کوئی بھی دوسری قوم یا ملک اس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس تنازع کو بڑے پیمانے پر عالمی مسئلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ متعدد ممالک پر مبنی بین الاقوامی فوج یہاں مہم جوئی کے لئے آئی، جس کے کچھ نتائج برآمد ہوئے اور کچھ نقصان پہنچا لہٰذا اس تنازع کو حل کرنے سے وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنائیں گے یا اس عمل میں اپنے مخصوص سیاسی مفادات کو حاصل کریں گے۔
اس لئے ا من مذاکرات کے دونوں فریق افغان حکومتی اور طالبان نمائندے غیرجانبدار قوت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر حکومتی، کیونکہ حکومتوں نے 2001ءمیں اپنی ترجیح واضح کر دی تھی۔
انٹرا افغان مذاکرات شروع ہونے سے پہلے، افغانوں کی زیرقیادت امن عمل پر زور دیا گیا تھا۔ کیا ثالث کی موجودگی سے امن عمل افغانوں کی زیرقیادت اور ان کا قبول شدہ نہیں رہے گا؟
اورزلا نعمت: افغانوں کا قبول شدہ اور ان کے زیرقیادت امن عمل کے ساتھ تجارتی اشتہار والا سلوک ہوا۔ بدقسمتی سے ایسے لوگوں نے یہ پروپیگنڈا کیا جو اس پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم نے اس عمل کا ابتدائی مرحلہ دیکھا جس میں امریکہ طالبان معاہدہ ہوا (جو ہر افغان کیلئے باعث حیرت ہے)۔ ایک بھی افغان رہنما اس کمرے میں موجود نہ تھا جہاں معاہدہ ہوا۔ طالبان نمائندوں کے علاوہ وہاں کوئی اور افغان نہ تھا یہاں تک کہ کوئی آزاد افغان صحافی بھی نہ تھا۔ یہ بیان جس میں کہا گیا کہ امن عمل افغانوں کا قبول شدہ اور ان کی زیرقیادت ہونا چاہیے، ایک ”تجارتی اعلان“ ہے۔ افغانستان اپنی بنیاد میں مکمل طور پر روایتی ملک ہے۔ اس کے ساتھ ملک کا ہر حصہ غیر ملکی مداخلت کا شکار ہے۔ غیر ملکی مداخلت خصوصی طور پر روسیوں اور امریکیوں نے نہیں کی بلکہ ایران، پاکستان، برطانیہ، چین، روس اور امریکہ جیسے ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ افغانستان کے دیہات اس مداخلت سے محفوظ نہیں رہے۔ میرے مطالعات اور تحقیقات دیہی افغانستان میں اسی مداخلت پر مرکوز ہیں۔ میں یاد دلانا چاہتی ہوں کہ روایت پسند قوم ہونے کے ساتھ اب یہ ماضی بھی ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر شہری، دیہی اور اعلی سطح پر”جرگہ اور کونسل نظام“ افغانستان کی مضبوط تاریخ رہی ہے، جو تنازعات کے حل کے لئے ایک مقامی طریقہ کار ہے۔ افراد یا خاندانی تنازعات کو خاندانی سطح پر حل نہیں کیا جاتا بلکہ شوریٰ یا جرگہ کے متعدد افراد اس تنازع کو حل کرنے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ افغان ثقافت ثالث کے کردار کا اس حد تک خیرمقدم کرتی ہے کہ اگر کسی اچھی شہرت والے ثالث کو اپنے خاندان میں تنازع کا سامنا کرنا پڑجائے تو وہ ثالثی میں حصہ نہیں لیتا کیوں کہ وہ تنازع میں خود فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ثالثی کے لئے دو یا تین افراد جمع کرنا پڑتے ہیں۔ ہم اس کلچر کی پیروی کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا پس منظر کے ساتھ دونوں متحارب فریق تھوڑی بہت بات چیت کے بعد دوحہ پہنچے ہیں تاکہ ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کریں، اگر دونوں فریق افغانستان کی مذکورہ ثقافتی خصوصیت پر عمل پیرا ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچیں۔
آپ اپنے افہام و تفہیم کی بنیاد پر، مختلف افغان علاقوں کی سماجی معلومات، افغان تنازع جس میں پیشتر ممالک شامل ہیں، کے بارے میں جانکاری اور ثالث، سہولت کار یا ضامن جیسی اصطلاحات کے تصوراتی امتیاز کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا آپ کسی ایک یا زیادہ ممالک کو مذاکرات میں شامل کرنے کی تجویز دیں گی؟ ہر اصطلاح کا الگ سے کیا کردار ہو گا؟
اورزلہ نعمت: ثالث ممالک کی حیثیت سے کام کرنے والوں کی بات کی جائے تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا افغانستان کے تنازع کے متعدد پہلو ہیں، اندرونی، علاقائی، عبوری اور عالمی۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ تمام علاقائی اور عالمی کردار خاص پس منظر رکھتے ہیں اور وہ مذکورہ متحارب فریقین کو فنڈز دیتے ہیں اور ان پر اثرانداز ہوتے ہیں لہذا ان ممالک کے لئے ثالثی کرنا بہت مشکل ہو گا۔
تاہم ضمانت یا ضامن کے ساتھ مختلف سلوک کیا جاتا ہے۔ ضمانت دینے کے حوالے سے دیکھا جائے تو امن عمل میں براہ راست شمولیت رکھنے والے ممالک جیسا کہ وہ ممالک جو انہیں رہائش فراہم کرتے ہیں، ان کے پاسپورٹ، دستاویزات پر کاروائی کرتے ہیں اور سفری سہولیات فراہم کرتے ہیں وہ مناسب ضامن ہیں۔
اسی طرح اسلامی جمہوریہ افغانستان کو امداد دینے والے ممالک مناسب طور پر ضامن کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ جیسے پڑوسی اور یورپی ممالک جو کئی برسوں سے افغانستان کی مالی اعانت کر رہے ہیں…لیکن مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے؟
سہولت کاری اور ثالثی ضمانت کی طرح نہیں ہے۔ یہ ممالک افغان متحارب فریقین پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بطور ضامن بھی کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن مذاکرات میں آسانی پیدا کر دینا ہی کافی نہیں ہو گا۔ مختلف تنازعات کے بارے میں میری تحقیقات اور مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں کسی بھی ادارے یا حکومت کیلئے ثالثی آسان نہ ہوگی، بشمول عالمی تنظیموں کے جن کی یہاں ایک تاریخ ہے جیسا کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)۔ وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔ معاصر تاریخ نے واضح کیا ہے کہ یہ عالمی ادارے اس علاقے میں ایسا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ مزید یہ کہ ایسے اداروں کو وہی ممالک فنڈز دیتے ہیں جو ”مفادات کے ٹکراﺅ“ کو بڑھاتے ہیں۔
ایک محقق کی حیثیت سے میں یہ تجویز کرتی ہوں کہ ہمیں ان ممالک اور علاقائی سطح پر ایسی انفرادی شخصیات کی طرف دیکھنا ہو گا جو ثالثی کیلئے اعلیٰ تکنیکی صلاحیت رکھتی ہوں۔ نجی شعبے، تعلیم، تحقیق اور مطالعاتی مراکز سے تعلق رکھنے والی شخصیات جنہیں تکنیکی مہارت کا تجربہ ہو اور دونوں فریق ان پر اعتماد بھی کرتے ہوں۔ ایسے افراد کا اجتماع ہونا چاہئے جو اسی طرح کے تنازعات میں تکنیکی تجربہ رکھتے ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ ہم مسئلے کے سیاسی پہلو کو نظرانداز نہیں کر سکتے لیکن اگر ممالک سہولت کاروں کی حیثیت سے اس میں مشغول ہوتے ہیں تو اس عمل کو دوبارہ سیاست کی نظر کردیا جائے گا۔ اسی وجہ سے افغان فریقین نے ثالثوں پر اتفاق نہیں کیا۔
کن خاص ممالک، بین الاقوامی اداروں یا انفرادی شخصیات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ کیا قطر ثالث کی حیثیت سے کام نہیں کررہا؟ اس ملک کے کردار سے مذاکرات پر کیا اثر پڑے گا؟
اورزلہ نعمت: قطر کی سہولت کاری میکانکی نوعیت کی ہے۔ مثال کے طور پر اس نے مذاکرات کے لئے جگہ فراہم کی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ جگہ مسئلے کا ایک اہم پہلو ہے اور یہ قابل قدر ہے۔ اگر یہ جگہ نہ ہوتی تو ہمارے پاس یہ موقع نہ ہوتا۔ اس موقع کو افغانوں کے لئے کارگر ثابت ہونا ہے لیکن اس نے کم از کم ایک ایسا راستہ فراہم کر دیا ہے جو ایک دن امن کا باعث بن سکتا ہے۔ افغان شہریوں کے لئے خونریزی جاری ہے اور جنگ ختم نہیں ہوئی ہے۔
قطر نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح کے عمل کی سہولت کاری کے لیے وہ جگہ ضروری ہوتی ہیں جہاں فریقین کو اعتماد کا احساس ہو اور وہ تمام سہولیات کو بروئے کار لاتے ہوئے مذاکرات کیلئے اپنی توانائیاں صرف کر سکیں۔ ثالثی کے حوالے سے ایک اور مسئلہ مذاکرات کے مندرجات ہیں۔
دو سال کے عرصے میں اس عمل کے سب سے بڑے چیلنجوں کا بخوبی اندازہ مختلف مراحل پر کیا جاسکتا ہے لیکن میں جو بات یہاں بتانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ یہ بات چیت کبھی بھی اپنے مندرجات پر مرکوز نہ رہی۔ حالیہ مرحلے میں بعض مذہبی نکات اور حکومتی عہدوں کے بارے میں بات ہوئی، تاہم یہ مذاکرات کے مندرجات کا حصہ نہ تھا۔
مذہب اور فرقہ ہمارے درمیان تناﺅ کا باعث کیوں ہے؟ نوے فیصد افغان مسلمان ہیں۔ اسلام 1994ءمیں افغانستان میںمتعارف نہیں ہوا تھا لہٰذا ہمیں اپنے دلائل کی بنیاد اس پر نہیں رکھنی کہ کون سی سیاسی تحریک کس چیز کا مطالبہ کرتی ہے۔ ثالثی کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سیاست اور شراکت اقتدار کی بجائے مندرجات پر توجہ دی جائے۔ دوسرے ممالک کے تجربات نے واضح طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ ثالثوں نے جب متحارب فریقین کو مذاکرات کے مندرجات پر مرتکز رہنے میں مدد فراہم کی تو وہ کامیاب ہوئے، متنازع امور اور حکومتی تشکیل سازی پر توجہ دینا ناکامی کا باعث بن جاتا ہے۔
جیسا کہ پہلے نشاندہی کی گئی افغانستان میں موجودہ کشمکش صرف جنگ ہی کے باعث نہیں۔ پڑوسی، علاقائی اور عالمی سطح پر ممالک افغان جنگ اور اس کے حالیہ امن عمل میں شامل ہیں۔ افغان فریقین کے مذاکرات کے عمل سے ثالثوں کو دور رکھنے کے دلائل ان ممالک کو لاتعلق کردیتے ہیں۔ تاہم یہ ممالک افغان جنگ اور امن عمل میں اپنے مفادات کے دیکھ رہے ہیں لہٰذا وہ اس عمل، نتائج اور متفقہ سیاسی نظام پر اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کریں گے۔
آپ کے خیال میں کیا ان ممالک کو باضابطہ طور پر اس امن عمل میں شامل ہونا چاہئے یا ان کا الگ رہنا ہی بہتر رہے گا؟
اورزلہ نعمت: ہم نے مشاہدہ کیا اور ہماری تاریخ کے چالیس برسوں سے پتہ چلتا ہے کہ جس بھی ملک یا گروہ کو پسماندہ کردیا گیا، اس نے مسائل پیدا کئے لہٰذا تنازع میں شامل ممالک کے لئے کسی کردار کی وضاحت کرنا بہت ہی مہارت کا کام ہو گا۔ افغانستان کے بین الاقوامی حلیف افغانستان کی مختلف انداز میں فوجی اور معاشی مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ اور یورپی ممالک کا کردار برابر نہیں رہا۔ ان کے فوجیوں کی تعداد اور گذشتہ بیس برسوں میں معاشی مدد کی سطح ایک جیسی نہیں رہی۔ اسی کے مطابق امن عمل میں ان کے کردار مختلف ہوں گے لہٰذا جب تک کہ یہ عمل حقیقی طور پر افغان قیادت کے ہاتھ میں نہ رہے، اس کو متوازن رکھنا بہت مشکل ہے۔
فی الحال امن عمل متوازن نہیں ہے۔ فریقین نے ایک ہی شہر میں رہنا قبول کیا ہے اس کا مطلب توازن اور معاہدہ نہیں ہے۔ ایک ماہ تک وہ جنگ بندی کے بنیادی اصولوں پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہر روز ہونے والی اموات کے ساتھ یہ عمل ہمارے لئے بہت مہنگا ثابت ہو رہا ہے۔
اس تنازع سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا اور متعلقہ ممالک کو شامل کرنے کے لئے طریقہ کار تیار کرنا نازک مرحلہ ہے۔ افغان حکومت کی طرف سے ایک مضبوط اور جامع قیادت کی فوری ضرورت ہے، ایک متحدہ افغان جماعت جو مستند طور پر افغانوں کی نمائندگی کرتی ہو اور مذاکرات کی میز پر طالبان کا سامنا کر سکے۔ ہم پچھلے بیس سال میں مختلف سیاسی گروہوں میں پائے جانے والے اختلافات کو دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے آج کوتاہیاں ہو رہی ہیں۔ ایک مذاکراتی ٹیم بنانے میں ہمیں دو سال لگے جو افغانستان کی سیاسی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ افغانستان کی قیادت کا سیاسی معاہدہ ایک میکانکی تصفیہ ہے۔ کسی نے اپنے بیٹے کو بھیجا ہے، دوسرے نے اپنا علامتی نمائندہ روانہ کر دیا اگرچہ مختلف اداروں کے متعدد حقیقی نمائندوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر یہ کہنا بدقسمتی ہے کہ حقیقی پائیدار امن کے حصول کے لئے کوئی بھی معاہدہ کرنے میں ایماندار نہیں ہے۔
قیادت کی عدم موجودگی سے دوچار رہتے ہوئے ہم غیر افغان ثالثوں کو امن عمل میں شامل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم افغانستان میں اپنی قیادت کے عزم پر عدم اعتماد کرتے ہیں۔ افغان سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہونے کے بعد ہی ہم ثالثوں کے کردار کی وضاحت کر سکتے ہیں، تجاویز پیش کر سکتے ہیں اور دوسری فریق کا اعتماد حاصل کر سکتے ہیں۔
یقیناً طالبان کو بھی ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ میڈیا اور پروپیگنڈا مقاصد کے لئے وہ اب بھی یہی پیغام دے رہے ہیں کہ ”ہم اقتدار دوبارہ حاصل کریں گے“۔ اتحاد قائم کرنے کے لئے کسی سمجھوتے کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا۔ افغان حکومت اور طالبان کی قیادتیں اپنے موقف اور امن عمل کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ابھی انھوں نے ابتدائی اقدامات کرنا ہیں۔ جب وہ مندرجات پر بات کرنا شروع کردیں گے تو ثالث کی عدم موجودگی میں ان کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا بہت مشکل ہو گا۔
اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ علاقائی ممالک خصوصاً افغانستان کے ہمسایہ ممالک افغانستان میں جنگ اور امن دونوں میں اپنے مفادات کی تلاش میں ہیں اور قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے چیئرپرسن ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ نے افغان امن سے متعلق علاقائی اتفاق رائے کے حصول کے لئے دوروں کا آغاز کیا ہے، جب باضابطہ ڈھانچہ موجود نہیں ہے اور افغانستان کے امن عمل میں ان ممالک کا کردار غیر واضح ہے تو آپ کو علاقائی اتفاق رائے ہوتا نظر آتا ہے؟
اورزلہ نعمت: جب میں افغانستان کی قیادت میں اتحاد اور ہم آہنگی کی کمی کے بارے میں بات کر رہی ہوں تو اس سے پچھلے بیس سال سے حکومتی اور غیر سرکاری اداروں کے متعدد دورے بھی مراد ہیں ، تاہم وہ کتنے کامیاب رہے؟
چھوٹی چھوٹی کامیابیاں ہوئی ہیں۔ افغانستان کے بارے میں شعور اجاگر کیا گیا، لوگوں کو پتلا چلا کہ افغانستان خطرناک حالت زار کا مرکز نہیں ہے، یہاں صلاحیت اور قابلیت موجود ہے ، یہ ہماری اچھی کامیابی ہے لیکن علاقائی سیاسی اتفاق رائے پر اس وقت تک دورے کر کے اتفاق پیدا کرنا بہت مشکل ہے جب تک کہ کوئی عملی منصوبہ تیار نہ کیا جائے اور اس پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دورہ بہر حال پروٹوکول اور میڈیا کوریج کے لئے ہوتا ہے۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ہمیں ایک مضبوط سیاسی قیادت کی ضرورت ہے لیکن اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ افغانوں نے انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے لئے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا تاکہ ریاست ان کی نمائندگی کرے لیکن اب وہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ سیاسی قیادت کوعوامی شمولیت کو یقینی بنانا چاہئے۔ شمولیت کو سیاسی گروہوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ تمام صوبوں، نسلوں اور قبائل کے افغان باشندوں کو سیاسی قیادت میں نمائندگی ملنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ ترقیاتی پروگراموں اور وسائل کی تقسیم میں عدم توازن رہا ہے لہٰذا جب تک سیاسی رہنما کسی متعین منصوبے پر عمل نہیں کرتے، یہ دورے غیر موثر رہیں گے، یہاں تک کہ اگر وہ آگے بڑھنے، علاقائی ممالک کے ساتھ معاہدوں اور بین الاقوامی برادری کے نمائندوں کی موجودگی میں تحریری وعدوں کا اعلان بھی کریں۔
جہاں تک دوروں کی بات ہے تو زلمے خلیل زاد کابل آتے رہتے ہیں، کیا کوئی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ان دوروں سے امن عمل میں افغان عوام کی شمولیت اور ان کی قبولیت یقینی بنائی گئی ہے ؟ میرے خیال میں محض دورے کرنا کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتا، ایجنڈے کے بغیر دورہ اور پہلے سے طے شدہ نتیجہ کے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
دوحہ میں انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز سے ہی ”افغانستان امن کے حامی“ کے نام سے ایک گروپ قائم کیا گیا، جس میں جرمنی، ناروے، امریکہ اور قطر کے نمائندے شامل تھے۔ مبینہ طور پر یہ گروپ مذاکرات کرنے والی جماعتوں کو غیر رسمی فریم ورک کا استعمال کرتے ہوئے مشورے دے رہا ہے۔ آپ امن عمل میں اس گروپ کے کردار کو کیسے دیکھتی ہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ گروپ ممکنہ طور پر باضابطہ ثالث یا سہولت کار بن سکتا ہے؟
اورزلہ نعمت: جن ممالک کا آپ نے تذکرہ کیا ہے انہوں نے اس امن عمل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تاہم ان کے کردار کی وضاحت فوج کی تعداد اور ان کی مالی امداد کی مناسبت کی جاتی ہے جو انہوں نے افغان حکومت کو فراہم کی ہیں لہٰذا وہ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ امن عمل کو آسان بنانے میں ان کا موثر کردار ہے اور یہ اب تک موثر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر قطر ایک واضح کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ کا بھی واضح کردار اور واضح ایجنڈا ہے۔ پچھلے بیس سال کے دوران اس کے نمایاں کردار کو کوئی بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ یورپی ممالک کا بھی اسی طرح کا کرداررہا ہے۔ تاہم ناروے اور جرمنی کا زیادہ نمایاں کردار رہا ہے۔
دونوں ممالک افغانستان میں یورپ یونین کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ امن عمل میں ضامن یا ثالث نہیں بن سکتے کیونکہ وہ براہ راست افغان جنگ میں شامل تھے اور انہوں نے یہاں فوج تعینات کی تھی۔ بیس سال کی جنگ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
جس طرح آج کل افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز طالبان کا مقابلہ کر رہی ہیں، 2014ءتک یہ تمام ممالک طالبان سے لڑ رہے تھے۔ اداروں یا افراد کی ثالثی کرنے کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ تنازع میں کسی کی دخل اندازی نہ ہو۔ 2001ءکے صدر بش کے نعرے پر عمل نہ کرنے والے ممالک کی تلاش ممکن ہے لیکن اس کا زیادہ امکان نہیں ہے۔ اگر ایسے ممالک موجود ہیں جو نسبتاً غیرجانبدارانہ رہے اور دونوں فریقوں کو ان پر بھروسہ ہے تو ہم وہاں ایسے افراد کی شناخت کر سکتے ہیں جو تنازعات کے حل میں مہارت اور تجربہ رکھتے ہوں ۔
اس کے باوجود افغانستان غیر ملکی مداخلت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کا مراد صرف پڑوسی ممالک ہی نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی ہیں۔ یہ ممالک جنگ اور امن دونوں حالات میں اپنے مفادات کی پیروی کرتے رہے ہیں۔
دوسرے ممالک میں اسی طرح کے تجربے کے ساتھ مفاہمت کے طریقوں کو دیکھتے ہوئے کوئی فرد، گروپ یا ادارہ، جسے ثالث سمجھا جا سکے، افغان امن مذاکرات میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
اورزلہ نعمت: مجھے لگتا ہے کہ ثالثی گروپ کی فوری ضرورت ہے۔ ثالثی گروپ لازمی طور پر ان اداروں سے وابستہ ہونا چاہئے جن کا افغانستان میں براہ راست مداخلت یا کردار نہیں رہا ہے۔ اعتماد سازی ماپنے کا ایک پہلو اس حقیقت سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ افغان معاملات میں شامل نہیں رہے ہیں۔ میں کسی کا نام نہیں لیتی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسے ادارے موجود ہیں۔ ہم نے متعلقہ مہارت رکھنے والے لوگوں سے بات کی اور ہمیں بتایا گیا کہ ایسے ادارے موجود ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم جس سیاسی عمل کے بارے میں بات کر رہے ہیں وہ انتہائی حساس اور غیر معمولی طور پر پیچیدہ ہے لہٰذا ان افراد یا اداروں کو جن کے صاف ستھرے ریکارڈ کی بنیاد پر ہم ثالثی کردار کے لئے غور کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مداخلت نہیں کر سکتے اور جن ممالک نے یہاں فوج تعینات کی ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے، انہیں مذاکرات کی مہارت حاصل کرنی چاہئے اور تنازعات کے حل اور ثالثی کی تکنیک سے آگاہ رہنا چاہئے۔
ہم دیہی افغانستان کے اندر موجود افراد کی شناخت کر سکتے ہیں تاکہ تنازعات کے حل میں افغان روایتی ثقافت اور دنیا بھر سے بین الاقوامی مہارت رکھنے والے افراد کا ایک گروپ تیار کیا جا سکے لہٰذا مسئلہ کو سیاست سے بالاتر رکھ کر اور ثالثی کو بطور مہارت سمجھنے سے امید ہے کہ امن عمل میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔
اگر فریقین مذاکرات میں ثالث سے اجتناب کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور بات چیت کو اسی طرح جاری رکھنے پر زور دیتے ہیں جس سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے تو آپ امن عمل پر افغانستان پر اثر انداز ہونے والے ممالک کی غیر رسمی مداخلت کا اندازہ کیسے کریں گی؟ مثال کے طور پر متعدد سیاستدان حال ہی میں علاقائی ممالک کے دورے پر گئے ہیں اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
اورزلہ نعمت: افغانستان میں سیاسی نظام جتنا مضبوط ہو گا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ افغان سیاستدانوں کی غیر ذمہ دارانہ سیاسی حرکتوں کو روکا جا سکے۔ لازمی طور پر طاقت، استبداد اور ظالم پالیسیاں استعمال کر کے مضبوط نظام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے افغانستان گذشتہ چالیس سال سے ان حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک سیاسی نظام کی طاقت عوامی شمولیت، تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین متفقہ پالیسیوں کی ساکھ سے حاصل ہوتی ہے۔ کسی کو بھی دوسروں کی مدد حاصل کرنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی، دوسرے ممالک کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ایک محاورہ ہے ”طاقت طاقتور کے حق میں ہوتی ہے، کمزور ہار جاتا ہے“ جس کا مطلب ہے کہ جب کوئی کمزور مل جاتا ہے تو دوسرے اس کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ اسی طرح اس امن عمل میں کمزور فریق مظلوم ہو گا اور طاقتور فریق اپنا کام کرے گا۔ افغانستان اور علاقائی ممالک کے مابین تعلقات میں افغان سیاسی نظام جتنا کمزور ہوتا جائے گا، پڑوسی ممالک کے رہنما اتنا ہی اس کا استحصال کریں گے۔
”سرحدوں کا احترام (خودمختاری)“ کا اصول صرف ایک نعرہ ہے۔ ہر ملک اپنے مفادات کی تلاش میں ہے۔ ہر قوم کے مفادات کی فہرست موجود ہے جس پر کسی بھی قیمت میں سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ اگر ہم مضبوط ہو ں تبھی کوئی ہمسایہ ملک ہماری سرزمین میں مداخلت کی جرات نہیں کرے گا کیوں کہ وہ انجام کو جانتے ہیں۔
کمزور افغانستان بنے گا تو اتنا ہی امکان ہے کہ پڑوسی ممالک استحصال کے مواقع تلاش کریں گے۔ ایک اچھی شہرت نہ رکھنے والے افغان رہنما کا حالیہ دورہ پاکستان اس کی واضح مثال ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک نے بظاہر ایسی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے جو اسے اپنے مفادات کے لئے استحصال کرنے کا موقع دیتی ہیں۔ بہر حال ہر ملک اتحادیوں کی تلاش میں ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ طالبان کی عدم موجودگی میں ان کے پاس اور کیا مواقع ہیں۔