پاکستان

حکمران طبقے کی فالٹ لائنز‘ بڑے زلزلے کا پیش خیمہ؟

لال خان

آصف علی زرداری کی گرفتاری کے بعد بلاول نے پریس کانفرنس میں فوج پر براہِ راست تنقید کی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ملک کی حاوی سیاست میں انتشار کس قدر بڑھ گیا ہے۔

طرز حکمرانی فوجی ہو یا سویلین‘ یہ کسی مخصوص نظام کی نمائندگی کرتا ہے۔ آمریت یا جمہوریت ایک ہی نظام کو چلانے کے دو مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ لیکن آمریتوں میں جبر بالعموم اتنا ننگا اور وحشیانہ ہوتا ہے کہ اس کے خلاف نفرت عوام میں پھیل جاتی ہے اور حکمرانوں کو ایسی تحریکوں کے ابھرنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جو آمریت کیساتھ ساتھ سارے نظام کی بساط لپیٹ سکتی ہیں۔ اس لئے پھر بظاہر انتخابات کے ذریعے جمہوری حکومتیں لائی جاتی ہیں۔ جن کے پیچھے نہ جانے کتنی مفاہمتیں اور معاہدے ہوتے ہیں۔

ظاہری طور پر پارلیمنٹ بن جاتی ہے۔ مخصوص حدود و قیود میں تقریر و تحریر کی تھوڑی بہت آزادیاں دے دی جاتی ہیں۔ سیاسی اشرافیہ کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور طعنہ زنی کے بہت سے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ حکمران طبقات اور ریاست کے مختلف دھڑوں کے سیاسی نمائندے بہت توں تکرار کرتے ہیں۔ نان ایشوز پر خوب لڑتے جھگڑتے بھی ہیں۔ جس سے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بڑی جمہوریت اور آزادی آ گئی ہے۔لیکن یہ آزادیاں وہیں تک ہوتی ہیں جہاں تک انہیں عطا کرنے والے چاہتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی سیاست میں آبادی کی بھاری اکثریت پر ایک خودکار پابندی بھی عائد ہوتی ہے۔ عام لوگ پیسے کی سیاست کے بے پناہ اخراجات برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں۔ اور دھن دولت بہائے بغیر معمول کے انتخابات جیتنا اور پارلیمنٹ میں آنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر عملی طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے تک کے لئے کئی قسم کی مقامی، قومی اور بین الاقوامی قوتوں تک رسائی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات سے حکمران طبقات کی جمہوری اداروں پر گرفت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

لیکن اگر موجودہ جمہوری سیٹ اپ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں آمرانہ روش کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہر ادارے، شعبے اور معاشرتی قدر کو کنٹرول کرنے کی کوشش اس حاکمیت کا خاصہ بن گئی ہے۔ اس مہم کا آغاز ذرائع ابلاغ کی صنعت سے ہوا تھا لیکن معاشرے پر اثرانداز ہونے والے ہر ذریعے کو مطیع کرنے کا سلسلہ ایک بے دریغ اور بے رحمانہ انداز میں جاری ہے۔ پچھلے 9 ماہ میں جو کچھ ہو چکا ہے اس کے بعد موجودہ حکومت کے سلیکٹڈ ہونے میں کوئی شعبہ باقی نہیں رہنا چاہئے۔

حکومت پر بلاول کی حالیہ تنقید سے اختلاف کرنا مشکل ہے۔ جس طرح گرفتاریاں ہو رہی ہیں اس کی مثال کھلی آمریتوں میں بھی کم ہی ملتی ہے۔ لیکن آج کی حزب اختلاف کی بڑی پارٹیوں کو بھی ماضی میں مقتدر قوتوں سے مشروط، مطیع اور ادھورا اقتدار ہی ملا تھا۔ تاہم پھر ایسے ملک میں جس کی معیشت دائمی بحران زدہ ہو، جو سامراجی مداخلتوں اور پراکسی جنگوں کے انتشار میں گھرا ہو اور معاشرے میں وسیع غربت کی وجہ سے مسلسل عدم استحکام کا شکار ہو‘جمہوری حکومتوں اور حاوی طاقتوں کے درمیان کبھی نہ کبھی چپقلش لازمی ہوتی ہے۔

بحران اتنا شدید ہے کہ اب براہِ راست مارشل لگا کر یہ نظام چلانا ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہوگیا ہے: اوپر بڑی ٹوٹ پھوٹ ہو سکتی ہے اور نیچے سے بڑی بغاوت مشتعل ہو سکتی ہے۔ اس لئے جمہوری لبادوں کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔

آمریتوں کے دوران عوام پستے رہے، کوڑے کھاتے رہے، پھانسیوں پر بھی چڑھتے رہے، بھوک اور افلاس کے ساتھ ریاستی جبر سے بھی لڑتے رہے۔ لیکن جب جمہوریت آئی تو انہی آمریتوں کے سویلین حواری سیاسی پارٹیوں کی ٹکٹیں اور نشستیں خرید کر اسمبلیوں کی ’زینت‘ بن گئے۔ حکمران طبقات کے لئے رشتے، احساس، ضمیر، اصول اور نظریات کارباری مصنوعات کی طرح ہوتے ہیں جنہیں جہاں منافع دیکھا وہیں فروخت کر دیا۔

ایوب خان کی آمریت نے بنیادی جمہوریت کا سویلین لبادہ اوڑھا اور خود ایوب خان نے وردی کی جگہ مسلم لیگی شیروانی پہن لی۔ اس کا وزیر خزانہ بھی سامراجی مالیاتی اداروں کا کارندہ تھا۔

ضیاالحق نے مجلس شوریٰ بنا ڈالی جس میں بڑے بڑے سیکولر اور لبرل ڈیموکریٹ بھی حاجی بن گئے۔ اور جمہوریت کا عالمی ٹھیکیدار امریکی سامراج اس وحشیانہ آمریت کا سرپرست بن کے افغانستان میں جہاد کرواتا رہا۔ صرف نواز لیگ ہی نہیں پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بھی اسی ضیائی مجلس شوریٰ کے اراکین آج بھی فائز ہیں۔

مشرف نے خود کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہلانے سے بھی گریز کیا اور چیف ایگزیکٹو بن گیا۔ اس نے آدھا تیتر آدھا بٹیر جیسی نیم آمرانہ جمہوریت رائج کی۔ جس کی کابینہ کے بیشتر وزیر آج عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ بلکہ شاید اس کی اکثریت ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اِس جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ آزادیاں مشرف آمریت میں حاصل تھیں۔ ریاستی جبر، قدامت پرستی اور فسطائی سوچوں کا غلبہ آج کی نسبت کہیں کم تھا۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کا اقتدار اس نظام کے اصل پالیسی سازوں کا ایسا تجربہ ہے جو بری طرح ناکام ہوا ہے۔ دائیں بازو کے پاپولزم والے معاشی پروگرام، جو موجودہ حالات میں ویسے ہی ناقابل عمل تھا، کی ناکامی سے سب کچھ براہِ راست آئی ایم ایف کے حوالے کرنا پڑ گیا ہے۔

حالیہ گرفتاریاں بھی عجیب نوعیت کی ہیں۔ مشرف دور میں پروان چڑھائے گئے نیب کو ہر دور میں وفاداریاں بدلوانے والے ادارے کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔لیکن اب اسے براہِ راست انتقام اور اذیت کا ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ الطاف حسین سے لے کے حمزہ شہباز، آصف زرداری اور شہباز شریف تک اقتدار کے بالائی ڈھانچوں کا حصہ رہے ہیں۔ آخر کار وہ اسی حکمران طبقے کا حصہ ہیں۔ اس لئے انہیں قانونی اور سیاسی تحفظ بہرحال حاصل رہے گا۔ اس کے برعکس علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری بالکل مختلف نوعیت کی ہے۔ وہ نیچے سے عوامی سیاست اور حمایت کے زور پہ اسمبلی تک پہنچے ہیں۔

ان کے مطابات کو آرمی چیف سے لے کے عمران خان تک جائزہ قرار دیتے آئے ہیں۔ ان سے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اپنے مطالبات پر سمجھوتہ اور نظام سے مصالحت نہ کرنے کی پاداش میں اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کھل کے اعتراف کیا ہے کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنا اُن کے بس میں نہیں ہے۔

اگر غور کریں تو حکمرانوں کے تمام تر آپسی اختلافات اور انتقامی کاروائیوں کے باوجود بات کبھی اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے تک نہیں پہنچی۔ لیکن علی وزیر اور محسن داوڑ کی رکنیت کی منسوخی کیلئے الیکشن کمیشن میں پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے۔

میاں شہباز شریف نے بھی گرفتار اراکین اسمبلی کو ایوان میں لانے کا مطالبہ آصف زرداری اور سعد رفیق تک ہی محدود رکھا ہے۔ اس معاملے میں وزیرستان کے ان دو اراکینِ اسمبلی کو فراموش کر کے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ کسی اور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسی مصالحتی پالیسیوں سے شہباز شریف کو سو پیازوں کیساتھ ساتھ اور بھی کافی کچھ کھانا پڑے گا۔لیکن یہی اس ملک کی سیاسی اشرافیہ کا تاریخی کردار ہے۔

سرکاری پالیسی سازوں کو یہ ادراک شاید نہیں ہے کہ افراد کو پابند سلاسل کرنے یا مٹا دینے سے ان سے جڑی تحریکیں نہیں رکا کرتیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام اصل طبقاتی مسائل پر صرف 1968-69ء میں اٹھے تھے۔ یہ تحریک درحقیقت ایک انقلاب تھی۔

آج اس حکمران طبقے کے زیر عتاب دھڑے موجودہ بحران کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اگر واقعی کوئی تحریک پھٹ پڑی تو اس اپوزیشن کے رہنماؤں کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی۔ پاکستان میں حکمران جس طرح آپس میں دست و گریبان ہو چکے ہیں‘ لینن نے اس کیفیت کو انقلاب کی ابتدائی علامت قرار دیا تھا۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔