امان اللہ کاکڑ
صوبہ خیبر پختون خواہ کی ہزارہ یونیورسٹی میں طلبہ اور ارکانِ فیکلٹی کیلئے نیا ڈریس کوڈ متعارف کروایا گیا ہے۔ خواتین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ عبایا، سکارف اور شلوارو قمیض پہنیں۔ ساتھ ہی میک اپ وغیرہ پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔
مرد حضرات کیلئے ہدایت ہے کہ وہ چست جینز، شارٹ شرٹس اور ٹایٹس سے گریز کریں، اس کے ساتھ چین اور ایرینگ وغیرہ پہننا بھی ممنوع ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان سب نے پاکستان میں تعلیمی اداروں کو شعور اور تعلیم دینے کی بجائے رجعت اور پسماندگی پھیلانے کیلئے استعمال کیا ہے۔
یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ 2019ء میں بھی صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع مردان میں ایک گرلز ماڈل سکول میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نے طالبات میں برقعے تقسیم کئے۔ بحریہ یونیورسٹی میں طلبا و طالبات کے مابین فاصلہ رکھنے کے لئے احکامات جاری کئے گئے۔
یہ پابندیاں اور برقعے صرف طلبہ اور فیکلٹی ممبران کیلئے نہیں ہیں بلکہ تمام تعلیمی نظام یہاں پاپندیوں کا شکار اور برقعہ پوش ہے۔
نصاب انتہائی غیر معیاری ہے۔ سائنس کو مذہب سے ماخذ ثابت کرنے کیلئے غیر فطری کوشش کی گئی ہے۔ سیاسیات میں طالب علموں کو غیر سیاسی بنانے والے مواد پڑھائے جاتے ہیں۔ ادب جذباتی شاعری سے بھرا پڑا ہے۔ فلسفے کو اتنا بدنام کیا گیا ہے کہ اب ہرکوئی فلسفہ پڑھنا غیر ضروری چیز سمجھتا ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کی پیداوار میں ماہرین کا فقدان ہے بلکہ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ معاشرے کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں۔
70 سال میں ہمارے پاس اس تعلیمی نظام کی بدولت 70 ایسے ماہرین نہیں ہیں جو عالمی معیار پر پورا اترتے ہوں۔ معیشت دانوں، سائنس دانوں، سیاست دانوں اور ماہرین کے فقدان کی ایک اہم وجہ یہ پسماندہ نظام تعلیم ہے۔
ملک بھر میں تعلیم تک رسائی انتہائی مشکل کام ہے۔ اوپر سے اس خستہ حال نظام تعلیم پر یہ پابندیاں مزید مسائل میں اضافہ کرتی ہیں: طلبہ کیا پہنتے ہیں، زیادہ اہم ہے مگر کیا پڑھتے ہیں، اہم نہیں۔ اسی طرح اساتذہ کیا پہنتے ہیں، اہم ہے۔ کیا پڑھاتے ہیں، اس کی خیر ہے۔
یو ں یہ نظام تعلیم نفرتیں اور پسماندگی، جو رجعت پسندی اور تاریکی پیدا کرتی ہیں، کو فروغ دیتا ہے۔ یہی انکا اصل مقصد ہے۔ کیا ان حکمرانوں کے بچے جو باہر کے ملکوں میں پڑھتے ہیں وہاں بھی ایسا لباس اور نصاب انکی ترجیح ہے؟ لگتا تو یوں ہے کہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔
کتنی افسوس کی بات ہے کہ طلبہ کے روشن مستقبل سے زیادہ تاریک مستقبل کیلئے غور کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی نظام جدیدیت لانے سے زیادہ پسماندگی لانے پر مائل ہے۔ تعلیم کو بہتر کرنے سے زیادہ بدتر کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور اس کے حصول میں آسانیاں پیدا کرنے سے زیادہ پیچیدگیاں پیدا کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس میں حیرت کیسی اگر ہم ہر وبا، ہر آفت اور ہر مشکل گھڑی میں دوسروں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔