دنیا

ایک تذویراتی سبق: جو آگ کابل میں لگائی جاتی ہے اسکا دھواں پاکستان سے اٹھتا ہے

فاروق سلہریا

پاکستانی حکمرانوں کے تعلقات کابل کے فرمانرواں سے کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ طالبان کی چار سالہ وحشت گردی کے دوران بھی یہ تعلقات ایسے مثالی نہیں تھے۔ اس کی ایک ہلکی سی مثال وہ سلوک ہے جو پاکستان کی فٹ بال ٹیم کے ساتھ کیا گیا: پاکستانی فٹ بال سٹارز کو اسٹیڈیم کے بیچ میں بٹھا کر ان کے سر منڈوائے گئے۔ ان کھلاڑیوں کا’قصور‘یہ تھا کہ انہوں نے نہ تو گھٹنوں تک لمبی ’شرعی‘نیکریں پہن رکھی تھیں، نہ ان کا ہیئر سٹائل ’شرعی‘ تھا۔ رہی بات ڈیورنڈ لائن کی تو اس کو طالبان نے بھی عالمی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

بہرحال اس سے قبل اور بعد میں جو بھی حکمران آئے، اسلام آباد کی ان سے نہیں بنی۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا زیادہ بڑا امکان تو نہیں مگر افغانستان وہ بد قسمت ملک ہے جہاں کوئی بھی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اگر اگلی بار طالبان اقتدار میں آئے تو اسلام آباد کی طالبان سے بھی نہیں بنے گی کیونکہ اب طالبان کی ایران سے بھی تعلق داری ہے، روس سے بھی اور ہندوستانی میڈیا میں بھی طالبان سے تعلقات استوار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اپنے شاگردوں کے ہاتھوں جس انجام کو کرنل امام پہنچے تھے، افغانستان کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں کی خارجہ پالیسی کا بھی وہی انجام ہو سکتا ہے۔ اس لئے وزیرا عظم عمران خان کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اب افغانستان میں عدم مداخلت کے راستے پر گامزن ہونا ہو گا۔

دوسرا نقطہ: افغانستان میں عدم مداخلت اس لئے بھی ضروری ہے کہ…اور پچھلے چالیس سال کی تاریخ اس کی گواہ ہے…جب کابل میں آگ بھڑکتی ہے تو پشاور سے لے کر کراچی تک پاکستان بھی دھوئیں میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی ایک سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ اَسی کی دہائی میں ’خاد‘ تھی یا گیارہ ستمبر کے بعد این ڈی ایس، وہ جوابی کاروائی کرتے ہیں [اَسی کی دہائی میں بھی افغانستان کو شکایت تھی کہ پاکستان نے مجاہدین کو پناہ دے رکھی ہے اور اکیسویں صدی میں بھی کابل کو مسلسل یہ شکایت ہے کہ پاکستان نے طالبان کو پناہ دے رکھی ہے]۔ دوم، بار بار یہ ثابت ہوا ہے کہ افغان جہادی اور پاکستانی جہادی بلکہ پوری مسلم دنیا کے جہادی ایک دوسرے کے کزن ہیں۔ یہ جہادی اپنی قومی ریاستوں کے نہیں، اپنی تنظیموں کے وفادار ہیں۔ جن کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، وہ سرحد نہیں دیکھتے۔ کابل کی ہزارہ برادری پر حملے پاکستان میں امام بارگاہوں پر ہونے والے حملوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھے جا سکتے۔ ویسے بھی یہ طے ہے کہ جب کسی ملک کے بارڈر پر آگ لگی ہو تو بارڈر بہت دیر آگ کا راستہ نہیں روک سکتے۔ پاکستانی حکمرانوں نے تو آگ کو بارڈر کراس کرنے کے لئے چالیس سال سے محفوظ راستہ دے رکھا ہے۔

آخری بات: سفارت کاری کی حرف ابجد یہ ہے کہ عالمی سطح پر اپنے جھگڑوں کو ختم نہیں کر سکتے تو انہیں کم سے کم کرو اور بغیر جنگ کے اپنے مقاصد حاصل کرو۔ اپنے پڑوسیوں سے، بالخصوص، اپنے جھگڑے نپٹاؤ تا کہ تمہارے بارڈر پُر امن رہیں۔ اس حکمران طبقے کی حالت یہ ہے کہ چار میں سے تین ہمسائیوں کے ساتھ پاکستانی حکمرانو ں نے جنگ والی کیفیت قائم کی ہوئی ہے۔ جن طالبان کی محبت میں ریاست نے تین پڑوسیوں سے تعلقات بگاڑ رکھے ہیں، چین بھی انہی طالبان کی وجہ سے گاہے بگاہے ناراضی کا اظہار کر چکا ہے۔ اگر ستر سال میں حکمران طبقہ اپنے پڑوسیوں سے تعلقات نہیں بنا سکا تو اس کا مطلب ہے اسے ڈپلومیسی یا سفارت کاری کی اے بی سی بھی معلوم نہیں۔

سویڈن یا تیونس جیسے ممالک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غیر جانبداری بہترین خارجہ پالیسی ہے۔ دوسروں کے معاملات میں ناک مت گھسائیں۔ دوسروں کو اپنے معاملات میں مداخلت مت کرنے دیں۔ یوں آپ ایک خطرناک اور تناؤ سے بھرپور خطے میں رہتے ہوئے بھی عالمی جھگڑوں سے بچ سکتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے کی سفارت کاری سے اس شرمناک لا علمی کی بھاری قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے جب کابل کے کسی زچہ بچہ وارڈ پر یا جلال آباد میں کسی جنازے پر حملہ ہو تو افغان شہریوں اور سول سوسائٹی سے زیادہ پاکستان کے شہریوں اور سول سوسائٹی کو احتجاج کرنا چاہئے۔ کابل اور جلال آباد میں لگنے والی آگ کے دھوئیں کو پشاور اور لاہور پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔