امان اللہ کاکڑ
چند روز پہلے سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی کی طرف سے تعلیمی اداروں میں عربی زبان لازمی مضمون قرار دیا جانے والا قانونی مسودہ پیش کیا گیا۔ اس قانونی مسودے کو سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
عربی زبان اتنی ضروری کیوں ہے یہ بل لانے اور منظور کرنے والے بہتر جانتے ہیں مگر اس وقت ماہرین سائنس اور ماہرین لسانیات سب اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی زبان میں حصول تعلیم بچوں کیلئے انتہائی مفید اور کارآمد ہے۔ جو بچہ اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرتا ہے وہ کسی اور زبان میں اتنی اچھی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ دنیا میں تمام ترقی یافتہ اقوام اپنی زبان میں بچوں کو تعلیم دیتی ہیں جسکے طلبہ پر اچھے اثرات ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک ملٹی لینگویل ملک ہے جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اول، یہاں نصاب قومی زبان میں نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ دوسرا یہاں کی قومی زبانوں کی اتنی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ یہ لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائیں۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ بچہ ایک ہی چیز ایک بار اپنی مادری زبان پھر اردو میں اور پھر انگریزی میں سیکھتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ یہ عنصر ہماری پسماندگی میں بڑا نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔
قومی زبان مادری زبان ہوتی ہے۔ کئی ممالک میں مختلف قومی زبانیں ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک زبان جبری طور پر قومی زبان کی حیثیت سے مسلط کی جائے اور قومی زبانوں غیر ضروری چیز قرار دی جائے۔ پاکستان کے بعض تعلیمی اداروں میں اپنی مادری زبان بولنے پر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے جبکہ بدیسی زبانیں لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ ایک متضاد اور غیر منصفانہ عمل ہے۔ زبان ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ زبان مٹنے سے قوم مٹ جاتی ہے۔ ایسی پابندیاں قوموں کو مٹانے کی کوشش ہوتی ہیں۔
اپنی زبانوں کی اہمیت نہ جاننے والے کیا جانتے ہیں کہ اس عمل سے آئندہ میں کیا نقصانات پیدا ہوسکتے ہیں؟ اس سے یہاں آباد قوموں کو خطرہ ہے انکی پہچان کو خطرہ ہے۔ ماہرین لسانیات کی رائے کے بغیر اس قسم کے مسودے پیش کرنا بچوں کے مستقبل سے مذاق ہے۔
ادھر تعلیمی نظام اس قدر مفلوج ہے کہ سانس لینے کا قابل نہیں ہے۔ طلبہ فیسوں اور آن لائن کلاسوں اور امتحانات کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ پاکستان میں معیاری تعلیم پر کوئی زور نہیں ہے۔ کبھی اس میں مذہب گھسایا جاتا ہے۔ ڈریس کوڈ لگائے جاتے ہیں۔ اسلامیات پڑھانے پہ زور ہے۔ عربی پڑھانے پہ زور ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فارسی پڑھائی جاتی تھی پھر جنرل ضیا الحق کے دور میں عربی پڑھانا شروع کر دی گئی۔ تعلیم کا اصل مقصد اس اس نظام تعلیم میں نہیں ہے جو طلبہ کے اندر ایک تنقیدی اور سائنسی سوچ پیدا کرے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے صوبہ بلوچستان گوادر میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ایک پروگرام میں چینی زبان کو لازمی قرار دیا تھا کہ میٹرک تک چینی زبان نصاب میں پڑھائی جائے۔ ان حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ آپکے نصاب تعلیم میں فلسفہ لازمی مضمون کے طور پر کیوں نہیں پڑھایا جاتا؟
اس وقت ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ مختلف قسم کے تعلیمی ادارے ہیں: پرائیویٹ سکول ہیں، مدرسے ہیں، بیکن ہاوس جیسے تعلیمی ادارے ہیں۔ اردو میڈیم سکول ہیں اور انگریزی میڈیم سکول ہیں۔ اب مدرسوں کے علاوہ سکول بھی مولوی لوگ چلاتے ہیں جو کسی معیار پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ ہر شہر میں مولوی ادارے چلا رہے ہیں پھر شام کو مدرسہ میں پڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سائنس بھی مولوی لوگ پڑھاتے ہیں جو کہ ایک سراسر مذاق ہے اور پھر لیکچر کے بعد یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ سائنسی دعوے سب جھوٹ ہیں اور قابل یقین نہیں ہے۔
نہ صرف بچوں کے مسائل ہیں بلکہ اساتذہ بھی مسائل کے شکار ہیں۔ سرکاری سکولوں میں انکی نوکریاں محفوظ نہیں ہیں۔ اساتذہ بہت سی مراعات سے محروم ہیں۔ نجی سکولوں میں قانون کے مطابق تنخواہیں نہیں دی جاتیں۔ معاشی طور پر غیر محفوظ اور پریشانیوں میں مشغول اساتذہ بچوں کو کیسے پڑھائینگے؟ اسی طرح دیہاتوں میں نہ سکولوں کی عمارت ہیں نہ لیٹرینیں ہیں۔
ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں۔ سارا زور عربی اور چینی زبان پر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان حکمرانوں کے بچوں نے عربی نہیں پڑھنی۔ یہ غریب اور محنت کشوں کے بچوں نے پڑھنی ہے۔ ہماری عربی زبان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ تمام زبانیں قابل احترام ہیں مگر زبان، تعلیمی زبان اور سکول سسٹم کے حوالے سے ہر ملک اور خطے کی کوئی ترجیحات ہونی چاہئیں۔
غیر ضروری زبانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بہترین نصاب، اچھی سائنس، اچھے نظریات، فلسفہ اور عہد حاضر کے بہترین علوم کی مادری زبانوں میں ضرورت ہے۔ نظام تعلیم کی پسماندگی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نظام تعلیم اتنا برباد ہے کہ اس میں اصلاحات کی گنجائش نہیں ہے پورے تعلیمی نظام کا سیٹ اپ تبدیل کرنا پڑتا ہے مگر ہمارے حکمران ایسے مسودات پیش کرتے ہیں جس سے محکوم قوموں کی پہچان، زبان اور ثقافت کو خطرہ لاحق ہے جبکہ دوسروں کی ثقافت مسلط کی جاتی ہے۔ عربی ثقافت اور زبان ہمارے اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں ہے مگر اچھی غلامی کی ضمانت ضرور ہے۔