حارث قدیر
میانمار میں فوجی آمریت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ منگل کے روز احتجاج کو غیر قانونی قرار دیئے جانے کے قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے ربڑ کی گولیاں چلائیں اور واٹر کینن کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ احتجاج میں شامل 2 درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ادھر متعدد پولیس اہلکاران و افسران کے احتجاج میں شامل ہونے کی غیر مصدقہ اطلاعات بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ دارالحکومت نیپیٹا میں مسلسل دوسرے روز پولیس کی ہوائی فائرنگ اور مظاہرین پر ربڑ کی سیدھی گولیاں فائر کئے جانے سے متعدد مظاہرین کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق میڈیا اور انٹرنیٹ و مواصلات کے دیگر ذرائع پر پابندیوں کے باعث اصل صورتحال جاننا ممکن نہیں ہے۔ تاہم غیر مصدقہ سوشل میڈیا رپورٹس میں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائے جانے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔ حکام کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کے حامیوں کے خلاف سخت انتباہ جاری کیا گیا ہے۔
ادھر مظاہرین مطالبہ کر رہے ہیں کہ معزول سول حکومت کے اقتدار کو بحال کیا جائے اور فوجی بغاوت کے بعد حراست میں لئے گئے ملک کے منتخب رہنماؤں، آنگ سان سوچی اور دیگر اراکین، کو رہا کیا جائے۔ اے پی کے مطابق جنوبی مشرقی ایشیائی ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور احتجاج جمہوریت کیلئے طویل ترین خونی جدوجہد کی ماضی کی تحریکوں سے مماثل ہے۔ 1988ء میں فوجی آمریت کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونیوالی عوامی بغاوت کو فوج نے جبر کے ذریعے کچلا تھا جبکہ 2007ء میں ہونیوالی بغاوت کی قیادت بدھ راہبوں نے کی تھی۔
واضح رہے کہ ینگون اور منڈالے میں ہفتے اور اتوار کے روز ہونیوالے احتجاج کے بعد پیر کی شب جاری کردہ سرکاری احکامات میں موٹر سائیکل جلوسوں سمیت پانچ سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ رات 8 بجے سے صبح 4 بجے کے دورانیہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ فوجداری ضابطہ کی دفعہ 144 کے تحت جاری کردہ احکامات کی خلاف ورزی پر 6 ماہ تک قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
منگل کے روز دارالحکومت نیپیٹا سمیت ینگون، منڈالے، بگو اور دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ وسطی میانمار کے شہر میگوئی میں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونیوالی غیر مصدقہ اطلاعات میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ متعدد پولیس افسران مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ دارالحکومت نیپیٹا میں بھی ایک پولیس افسر سے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ مظاہرین کی صفوں میں شامل ہو گیا۔
میانمار کے تجارتی دارالحکومت سمجھے جانے والے سب سے بڑے شہر ینگون میں سخت سکیورٹی کے باوجود ہزاروں افراد کا احتجاج بدستور جاری رہا۔ تاہم کسی قسم کے تشدد کی اطلاع نہیں ملی۔
فوجی حکومت نے مظاہروں کو روکنے کیلئے فوج کی تعیناتی کا عندیہ بھی دیدیا ہے۔ فوج کے پاس ماضی کی بغاوتوں کو کچلنے کے علاوہ آزادی کا مطالبہ کرنے والی سرحدی اقلیتوں کی تحریکوں کو کچلنے کا تجربہ بھی موجود ہے۔ میانمار کی فوج نے چار سال قبل روہنگیا مسلم اقلیت کی نسل کشی کرتے ہوئے درندگی اور وحشت کی مثالیں قائم کر رکھی ہیں۔ فوجی جبر اور نسل کشی کی وجہ سے 7 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلم اقلیت کے افراد بنگلہ دیش سمیت دیگر علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
وزارت اطلاعات نے جاری بیان میں مظاہروں کو ملکی استحکام کو خطرے میں ڈالنے کا موجب قرار دیتے ہوئے سخت قانونی اقدامات اٹھانے کی دھمکی دی۔ تاہم فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والے فوجی کمانڈر جنرل من آنگ ہیلنگ نے قوم سے خطاب میں انتخابات کے دوران دھاندلی کو فوجی قبضے کا جواز قرار دیتے ہوئے ایک سال کے اندر نئے انتخابات کروانے کا اعلان کیا اور کہا کہ انتخابات میں کامیاب ہونیوالی قیادت کو اقتدار سونپا جائے گا۔
ادھر جنیوا میں قائم 47 ممالک پر مبنی اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میانمار کے بحران اور انسانی حقوق کی صورتحال پر غور کرنے کیلئے جمعہ کے روز خصوصی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ اس اجلاس کی درخواست برطانیہ اور یورپی یونین کی طرف سے کی گئی ہے۔
نیوزی لینڈ نے میانمار کے ساتھ تمام فوجی اور اعلیٰ سطحی سیاسی رابطے معطل کر دیئے ہیں۔ نیوزی لینڈ نے میانمار کے فوجی رہنماؤں پر سفری پابندی عائد کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں نے میانمار میں ہونیوالی فوجی بغاوت اور احتجاج پر ریاستی کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کی ہے۔ فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر کریک ڈاؤن کئے جانے کی اطلاعات کے بعد دنیا بھر سے سوشل میڈیا پر میانمار میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔