قیصر عباس
اقبال احمد ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستانی نژاد امریکی دانشور اور یونیورسٹی کے پروفیسر تھے۔ وہ نہ صرف ایک شعلہ بیاں مقرر بلکہ ایک فعال نظریاتی کارکن بھی تھے جنہوں نے فرانس کے خلاف الجزائر کی تحریک آزادی میں حصہ لیا اور ویت نام پر امریکی فوجی حملے کے خلاف نوجوانوں کی تحریک میں بھی شامل رہے۔
ان کا شمار ویت نام میں امریکی جنگ کے خلاف نوجوانوں کی تحریک کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوف زدہ اس وقت کی سامراجی ایجنسیوں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا اور بغاوت کے ایک مقدمے میں ملوث کرنے کی کوشش ناکام بھی کی۔ ان کے گروپ پراس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کواغوا کرنے کی سازش کا الزام تھا لیکن عدالت نے ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں اپنے چھ امریکی ساتھیوں سمیت بر ی کر دیا تھا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بی بی سی ارد وسروس کی ویب سائٹ پر ان کے بارے میں ایک حالیہ مضمون کا آغاز کچھ اس طرح کیا گیا ہے:
”امریکہ میں پہلامبینہ’پاکستانی دہشت گرد‘ سنہ 1971ء میں ان الزامات کے تحت گرفتار ہوا تھا کہ اس نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر امریکہ کے اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کو اغوا کرنے اور اہم سرکاری عمارتوں کے ہیٹنگ نظام کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی سازش تیار کی تھی۔“
اس مضمون کے آغاز میں اقبال احمد کا تعارف ایک مبینہ دہشت گرد کے طور پرکیا گیا ہے جس کو پڑھنے والے ادارے کی پیشہ ورانہ دیانت داری پر سوالات اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تویہ تاثر بھی لے سکتے ہیں کہ ویت نام میں امریکی مداخلت کے خلاف طلبہ کی ملک گیر تحریک بھی دہشت گردی کا حصہ تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تعارفی پیراگراف کے علاوہ مضمون کا سارا متن اقبال احمد کی نظریاتی وابستگی اور ان کے کام کااحاطہ کرتاہے جس میں مصنف نے خاصی تحقیق کے بعد ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ابتدائی حصہ متن سے قدرے مختلف ہے جو پورے مضمون کے مثبت تاثر کو زائل کر رہا ہے خصوصی طور پران قارئین کے لئے جو لفافہ دیکھ کر مضمون بھانپ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مزید پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں۔
اقبال احمد سے میرا غائبانہ تعارف تو ان کی تحریروں اور مضامین کے ذریعے تھا لیکن اّسی کی دہائی میں یونیورسٹی آف وسکانس، میڈیسن کی جنوبی ایشیاکانفرنس کے دوران انہیں سننے کا موقع بھی ملا جہاں میں اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر رہا تھا۔ اس موقع پر اپنی پر اثر تقریر میں انہوں نے ویت نام اور افغانستان میں امریکی مداخلت کا جائزہ لیا۔ ان کی یہ تقریر مجھے آج بھی یاد ہے جس میں انہوں نے پیش گوئی کی تھی کہ افغانستان امریکہ کے لئے دوسرا ویت نام ثابت ہو گا جو اتنا عرصہ گزرجانے کے بعدآج بالکل صحیح ثابت ہو رہی ہے۔
تعلیم سے فارغ ہوا تو اپنی ملازمت کے دوران میں نے انہیں یونیورسٹی آف منیسوٹا میں تقریر کی دعوت دی جس میں ان سے گفتگو کے مواقع بھی ملے۔ اس دوران وہ پاکستان میں خلدونیہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے کوشاں تھے جس پر ہماری سیر حاصل گفتگو بھی ہوئی۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان میں تعلیمی ادارے عام لوگوں کے مسائل اور سماجی شعور سے کوسوں دور ہیں اور تعلیم ہمارے معاشرے میں ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑیں اپنی زمین میں نہیں ہیں۔ اس کمی کوپورا کرنے کے لئے ان کی تجویز تھی کہ طلبہ کو دیہی علاقوں میں کسانوں اور عام لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ اسی نظریے کو ا نہوں نے اپنی مجوزہ یونیورسٹی کے نصاب کا حصہ بھی بنایا تھا۔ اس ملاقات نے مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم کو ان کے خیالات سے بہت کچھ سیکھنے کا نادر موقع دیا۔
ڈاکٹر اقبال احمدایک عرصے تک امریکہ کے ہمشر کالج میں درس وتدریس کے بعد 1997ء میں پاکستان منتقل ہو گئے تھے جہاں وہ خلدونیہ یونیورسٹی، کے قیام کی کوششوں میں مصروف رہے اور حکومت نے انہیں اس مقصدکے لئے زمین بھی مختص کر دی تھی۔ اب تک تو شاید اس زمین کے بھی حصے بخرے ہو چکے ہوں گے۔
یونیورسٹی کے قیام کی جدوجہدکے دوران ان کی عمر کا آخری حصہ سرکاری دفتروں کے چکر لگاتے گزرا۔ ان کا انتقال 1999ء میں اسلام آباد میں ہوا۔
حقیقت شاید یہی ہو کہ اقبال احمد کولوگ پاکستان میں اتنا نہیں جانتے جتنا امریکہ میں جانتے ہیں۔ ہمشر کالج میں ان کے کام، تصنیفات اور زندگی پر ایک ارکائیو قائم ہے جو تحقیق کے لئے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ یہیں ان کی یاد میں ہر سال ایک لیکچر کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ’اقبال احمد سنٹرفارپبلک ایجوکیشن‘ کے ذریعے ان کے نظریات کی نشر و اشاعت کا کام سرانجام دیا جا رہا ہے جس کے روحِ رواں پرویز ہود بھائی ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔