اسلم ملک
پاکستان بنا تو ساحر لدھیانوی لاہور میں تھے۔ یہاں ابن انشا، حمید اختر، اے حمید، عارف عبدالمتین جیسے دوستوں کی صحبت میسر تھی۔ ”سویرا“ کی مجلسِ ادارت میں بھی شامل تھے۔پھر یہ ہوا کہ پاکستان اور امریکہ میں پینگیں بڑھنے لگیں۔ ترقی پسندوں کی نگرانی اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔
1948ء کے جون کے یہی دن تھے جب حمید اختر اور سید سجاد ظہیر کراچی گئے ہوئے تھے۔ شورش کاشمیری ساحر سے ملے اور کہا کہ حمید اختر اور سجاد ظہیر کراچی میں گرفتار ہوگئے ہیں (حالانکہ یہ بات درست نہیں تھی) تمہاری بھی تلاش ہورہی ہے۔ تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ بھاگ جاؤ۔ شورش کی نیت پتہ نہیں کیا تھی۔ ساحر چپکے سے بمبئی چلے گئے۔
ساحر نے لاہور میں ”سویرا“ کے دو شمارے (نمبر 3 اور 4)ایڈٹ کیے۔ استادِ محترم سید فضیل ہاشمی کی روایت ہے کہ ساحر نے روزنامہ ”امروز“ میں بھی چند دن کام کیا۔ اتوار کو دفتر نہیں گئے۔ پیر کو گئے تو پوچھا گیا کہ آپ کل آئے نہیں۔ انہوں نے جواب دیا اتوار کو تو چھٹی ہوتی ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ اخبار تو روز نکلنا ہوتا ہے۔ یہاں باری باری چھٹی ہوتی ہے۔ کسی کی پیر، کسی کی منگل۔ آپ بھی کسی دن کر لیجئے گا۔ ساحر نے اتوار پر اصرار کیا۔ کسی اور کی چھٹی بدلے بغیر فوری طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس دن کے بعد وہ دفتر نہیں گئے۔
میرے یونیورسٹی کے زمانے میں شاید ہی کوئی طالب علم ہو جس نے ساحر کی ”تلخیاں“ نہ پڑھی ہو۔ ان کی مشہور نظم ”تاج محل“ کے علاوہ ”میں نہیں تو کیا“، ”یہ کس کا لہو ہے“، ”میرے گیت تمہارے ہیں“، ”نور جہاں کے مزار پر“، ”جاگیر“، ”مادام“، ”لہو نذر دے رہی ہے حیات“، ”آوازِ آدم“، ”خوبصورت موڑ“اور ”لمحہ غنیمت“ جیسی نظمیں نوجوانوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ ان کی کتاب ”تلخیاں“ کے کم از کم سو سے زائدجائز اور ناجائز ایڈیشن چھپے لیکن اب نوجوانوں میں ذکر سننے میں نہیں آتا۔ اب نئی دلچسپیاں ہیں۔
ساحر کی فلمی شاعری بھی اتنی مقبول ہوئی کہ ان کے فلمی گیتوں کے مجموعوں ”گاتا جائے بنجارہ“ اور ”گیت گاتا چل“ کے جتنے ایڈیشن شائع ہوئے اتنے کسی اور فلمی شاعر کے نہیں ہوئے۔
بالی وڈ میں ساحر کی جوڑی سب سے اچھی ایس ڈی برمن کے ساتھ بنی۔ انہوں نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا۔
انھوں نے کم از کم دو ایسی انتہائی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی”پیاسا“اور یش راج کی”کبھی کبھی“ شامل ہیں۔
ان کے کچھ گانے:
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
نیلے گگن کے تلے
چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں
دامن میں داغ لگا بیٹھے
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی
ساحر 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد نے ان کا نام عبدالحئی اس سہولت کیلئے رکھا کہ مخالف پڑوسی عبدالحئی کو بلا خوف گالیاں دے سکیں۔ ساحر کا 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں انتقال ہوا۔ چاہنے والوں نے مقبرہ بنایا لیکن جنوری 2010ء میں اسے مسمار کردیا گیا۔ جوہو گارڈن کے روبرو قبرستان کے منتظم‘ مسلم مجلس ٹرسٹ کے عہدیداروں کا کہنا تھاکہ قبرستان میں جگہ کی قلت کی وجہ سے ہر سال ایسا کیا جائے گا تاکہ نئی قبروں کی جگہ بنائی جاسکے۔ اس قبرستان میں محمد رفیع، مدہو بالا، نسیم بانو،ساحرلدھیانوی، نوشاد، علی سردار جعفری،خواجہ احمدعباس، جاں نثار اختر، طلعت محمود،نسیم بانو اور پروین بابی کی قبریں بھی تھیں۔ معلوم نہیں کوئی بچی ہے یا نہیں۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔