فاروق سلہریا
مولانا صاحب! آداب۔
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ کے نام سے منسوب لباس کا نیا برانڈ ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) ان دنوں خبروں میں ہے۔ یہ خط اسی سلسلے میں ارسال کر رہا ہوں۔
یقین کیجئے پہلی بار جب یہ خبر پڑھی کہ آپ ایک نیا برانڈ جاری کر رہے ہیں تو بہت سے دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین نہیں آیا۔ سوچا جب آپ تبلیغ کا برانڈ اتنی کامیابی سے چلا رہے ہیں تو ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ مرحوم جنید جمشید شہید کے بنائے ہوئے اتنے زیادہ کامیاب برانڈ (J.) کے ہوتے ہوئے ایک اور اسلامی و تبلیغی برانڈ کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ ایک تبلیغی بھائی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے دوسرے تبلیغی بھائی کے دھندے میں ٹانگ اڑائے اور اس کو اربوں نہیں تو کروڑوں کا نقصان پہنچائے۔
وہ تو آپ کا ویڈیو بیان جاری ہوا تو مجھے یقین آیا کہ نہ صرف خبر درست ہے بلکہ آپ نے ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) برانڈ بارے جو ویڈیو بیان جاری کیا اسے سن کر میں بہت محظوظ ہوا۔ آپ کی اس بات پر میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا کہ آپ نے یہ برانڈ اس لئے جاری کیا ہے تا کہ اس کی آمدن سے آپ مدرسے چلا سکیں۔ مولانا کیا اب آپ فیشن کی مدد سے مدرسے چلائیں گے؟
ویسے ہنسی اس بات پر نہیں آئی کہ آپ فیشن کی مدد سے مدرسے چلائیں گے۔ اس پر ہنسی نہیں غصہ آنا چاہئے۔ جس فیشن کی مذمت کرتے کرتے آپ اس قدر مشہور ہو ئے ہیں، اسی فیشن پر اتنا بڑا یو ٹرن تو عمران خان بھی نہ لے سکے۔ ہنسی اس بات پر آئی کہ آپ اپنے کپڑے کے اشتہاروں میں حوروں کو کاسٹ کریں گے یا انضمام الحق کو۔
مجھے تو لگتا ہے جس طرح مولوی حضرات نے مغربی سرمایہ داری، مغربی جمہوریت (جب الیکشن جیتنے کی امید ہو)، بوقت ضرورت (یعنی بھارت اور مغربی ممالک میں) مغربی سیکولر ازم اور مغربی فیشن کو قبول کر لیا ہے اسی طرح ایک دن آئے گا ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) برانڈ کیٹ والک اور مقابلہ حسن بھی کروایا کرے گا۔ جب مارکس وادی اور ترقی پسند ان کیٹ والکس اور بیوٹی پاجنٹ (Beauty Pageant) کی مذمت کریں گے تو مولوی حضرات مارکس وادیوں کو گلوبلائزیشن دشمن قرار دے کر فتوے جاری کیا کریں گے۔ ویسے مولانا! آپ مولویوں کے خلیجی مائی باپ تو پہلے ہی اس راستے پر بحمداللہ گامزن ہیں۔
مولانا! اپنے ویڈیو بیان میں آپ نے ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) برانڈ لانچ کرنے پر آپ کی مذمت کرنے والے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ برصغیر میں علما حضرات کا تجارت کرنا نہ جانے کیوں برا سمجھا جاتا ہے۔
کسی حد تک تو آپ کی بات ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں علما کا ڈالر لے کر جہاد کرنا یا جہاد کے نام پر ہیروئین کی تجارت کرتے ہوئے ارب پتی بن جانا عیب نہیں سمجھا جاتا لیکن فیشن برانڈ جاری کرنا برا سمجھا جا رہا ہے۔ فیشن برانڈ ڈالر جہاد اور منشیات کی سمگلنگ سے بلا شبہ کم خطرناک ہے۔
بات لیکن یہ ہے کہ مذمت آپ کی تجارت کی نہیں کی جا رہی۔ مذمت اس بات پر کی جا رہی ہے کہ جب کینسر ہسپتال بنا کر ووٹ مانگے جائیں تو پھر کینسر ہسپتال نیکی نہیں ایک ٹول (Tool) بن جاتا ہے۔ اپنے حلقہ عقیدت میں نیک نامی اور ملک بھر میں آپ کی شہرت آپ کے تبلیغی کردار کی وجہ سے ہے۔ اس نیک نامی اور شہرت کو جب منافع کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے گا تو لوگ سوال تو اٹھائیں گے۔
آپ کا فرمانا ہے کہ یہ منافع مدرسے چلانے کے کام آئے گا۔ مصیبت یہ ہے کہ مزدوروں اور محنت کشوں کا استحصال کئے بغیر منافع نا ممکن ہے۔ منافع کی یہ حقیقت ہمارے مرشد کارل مارکس نے اس وضاحت سے بیان کر دی ہے کہ اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ مزدور کا خون نچوڑ کر مدرسوں کو کیوں پلانا چاہتے ہیں؟ یہ کیسی نیکی ہے؟
چلئے اس بات کو بھی چھوڑئے۔ آپ ہمیشہ حکمرانوں، سرما یہ داروں اور طاقتوروں کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ آپ سے کسی انقلابی کردار کی مجھے کوئی توقع تھی نہ ہے۔ صرف اتنا بتا دیجئے ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) برانڈ جاری کرنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟ اس ملک کا ایک وزیر اعظم اس لئے ملک بدر ہے کہ وہ اپنی آمدن کے ذرائع نہیں بتا سکا۔
سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی ایک پرانی فلم کے مشہور مکالمے کی زبان استعمال کرتے ہوئے پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں: کہاں سے آئے یہ جھمکے؟ کس نے دئیے یہ جھمکے؟ کیوں دئیے یہ جھمکے؟
ہمارے تمام تر اختلافات کے باوجود میں امید کرتا ہوں آپ مجھے ’MTJ‘ (ایم ٹی جے) کے مزدوروں کو ٹریڈ یونین میں منظم کرنے سے نہیں روکیں گے۔ اجازت چاہوں گا۔
خیر اندیش۔
فاروق سلہریا
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔