لاہور (جدوجہد رپورٹ) امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کے مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ کے پہلے جنگی اقدام میں امریکی فضائی حملے میں ایک طاقت ور ایرانی حمایت یافتی عراقی مسلح گروہ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکی حملے میں عراقی مسلح گروہ کا 01 عسکریت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق پینٹاگون نے کہا ہے کہ یہ حملے رواں ماہ کے آغاز میں عراق میں راکٹ حملے کی جوابی کاررائی تھے جس میں ایک شہری ٹھیکیدار ہلاک اور امریکی اہلکاردیگراتحادی فوجیوں کو زخمی کیا گیا تھا۔
عراقی ملیشیا کے عہدیدار نے اے پی کو بتایا کہ کاتب حزب اللہ یا حزب اللہ بریگیڈ کے خلاف ہونے والے حملوں میں شام کے مقام بوکمل کے عراقی سرحد کے ساتھ والے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ شام کی جنگ کی نگرانی کرنے والے گروپوں کے مطابق ان حملوں میں بوکمل میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کے اڈے کی طرف ہتھیار منتقل کرنے والے ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ماضی میں بھی امریکہ نے شام میں حزب اللہ سے تعلق رکھنے والی تنصیبات کا نشانہ بنایا ہے، جن پر عراق میں امریکی اہلکاروں اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ واضح رہے کہ عراقی کاتب لبنانی حزب اللہ تحریک سے الگ ہے۔
شام میں جنگ پر نگاہ رکھنے والے برطانوی گروپ سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق امریکی حملوں میں ہتھیاروں کی کھیپ کو نشانہ بنایا گیا جو عراق سے شام کے علاقہ میں داخل ہونے والے ٹرکوں کے ذریعے لے جا ئے جا رہے تھے۔ اس گروپ کے مطابق 22 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں، تاہم اس رپورٹ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ایران نے رواں ہفتے کہا ہے کہ اس کا بلڈ بریگیڈ کے سرپرستوں سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ گزشتہ سال بغداد میں امریکی حملوں میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا کے رہنما ابو مہدی المہندس کی ہلاکت کے بعد ایران کے حمایت یافتہ گروہ نمایاں طو رپر الگ ہو گئے ہیں۔ یہ دونوں رہنما عراق میں سرگرم عمل ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد مسلح گروہ تیزی سے بے قابو ہو چکے ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلح گروہوں کی یہ تقسیم اور مختلف ناموں کے ذریعے سے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا اپنی شناخت کو چھپانے کا ایک ہتھکنڈا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے حلف لینے سے قبل گزشتہ سال کے آخر میں عراق میں امریکی اہداف کے خلاف شیعہ ملیشیا گروپوں کے حملوں کی تعداد کم ہوئی تھی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے عراق میں متعدد حملوں کا الزام ایران کے حمایت یافتہ گروہوں پر عائد کیاتھا۔
امریکی فوج کو عراق میں نمایاں طو رپر کم کر کے 2500 اہلکاروں تک محدود کر دیا گیا ہے اور اب دولت اسلامیہ گروپ کے خلاف جاری کارروائیوں میں عراقی فورسز کے ساتھ جنگی معرکوں میں امریکی اہلکار حصہ نہیں لیں گے۔