قیصرعباس
برطانیہ کی مرحومہ شہزادی ڈائنا کے بیٹے ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن نے امریکہ کی مشہور اینکر آپرا ونفری کے ساتھ ایک سنسی خیز انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ان کے بیٹے کی پیدائش سے قبل شاہی خاندان میں بحث جاری تھی کہ اگر آنے والا شہزادہ سیاہ فام ہوا تو کیا ہوگا؟
اتوار کو نشر کئے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں میگھن نے کہاکہ ”شاہی خاندان کو بے حد فکر تھی کہ ”آنے والا شہزادہ کس حد تک سیاہ فام ہوگا۔‘‘ انہوں نے بتایاکہ وہ شاہی خاندان کے سلوک سے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کے قریب پہنچ گئی تھیں۔ ”میں مزید زندہ نہیں رہنا چاہتی تھی اور یہ ایک ہولناک احساس تھا“ انہوں نے شاہی زندگی میں شامل ہونے کے بعد خودکشی کے قریب بڑھتی ہوئی ذہنی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔
ان کے کہنا تھا کہ وہ ملکہ الزبتھ دوئم کی بے حد عزت کرتی ہیں لیکن شاہی خاندان کا روّیہ ان کے لئے ناقابل برداشت ہوچکا تھا اور وہ ذہنی مریض بن چکی تھیں۔ ان کے مطابق ”میرے ساتھ ملکہ کا رویہ ہمیشہ مشقفانہ رہا۔“
شہزادی میگھن نے مزید بتایاکہ شادی سے پہلے انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ شاہی ماحول ا ن کی ذاتی زندگی پر کس حد تک اثرانداز ہو سکتا ہے: ”میں شاہی خاندان کی زندگی سے ناواقف تھی کیونکہ میری پرورش ایک دوسرے ماحول میں ہوئی تھی۔“
اس جرم کی پاداش میں کہ شہزادہ ہیری نے ایک سیاہ فام سے شادی کی تھی یہ شاہی جوڑا گزشتہ سال شاہی مراعات اور مالی مدد سے محروم ہوگیا تھا۔شہزادہ ہیری نے بتایا کہ انہیں مالی معاونت سے علیحدگی کی فکر نہیں تھی مگر ان کے شاہی رشتوں کی بناء پر صر ف اپنے نومولود بیٹے کی سیکورٹی کی فکر تھی جو بہت مہنگی تھی۔ انہوں نے اپنی والدہ شہزادی ڈائناکی وراثت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بیٹے کی سیکورٹی کے انتظامات کئے تھے۔
میگھن نے بتا یا کہ وہ اپنے بیٹے کے لئے شاہی خطابات صرف اس لئے چاہتی تھیں کی ان کے ذریعے اسے سیکورٹی حاصل ہوسکے اور اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
ہیری نے انکشاف کیا کہ وہ شاہی خاندان ہی کا حصہ رہتے اگر وہ میگھن سے شادی نہ کرتے اور اس کا اندازہ بھی انہیں شادی کے بعد ہی ہواکہ وہ کس قدر شاہی خاندان کے قیدی ہیں۔ انہوں نے کہا ”میری حالت شاہی رسوم ورواج اور زندگی میں قیدیوں جیسی تھی۔ میرے والد اور میرے بھائی سب شاہی زندگی کے اسیر ہیں۔“
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی دادی ملکہ برطانیہ کی بے انتہا عزت کرتے ہیں اور یہ افواہیں غلط ہیں کہ انہوں نے شاہی ذمہ داریوں سے الگ ہونے سے پہلے ملکہ کو مطلع نہیں کیا تھا: ”میں ملکہ کی عزت کرتا ہوں اور کسی طرح انہیں اندھیرے میں نہیں رکھ سکتا تھا۔“
اطلاعات کے مطابق اس صورت حال سے نبٹنے کے لئے برطانیہ کے شاہی خاندان کا ایک اجلاس بلایا جارہا ہے جس میں آئندہ کی حکمت عملی اور انٹرویو کے اثرات پر غور کیا جائے گا۔
برطانیہ میں اب شاہی خاندان کو قانونی اور سیاسی نقطہ نظر سے وہ اثر ورسوخ تو حاصل نہیں ہے جو پہلے تھا لیکن ایک طبقاتی سماج میں شاہی وراثت میں ملی جائیداد اوربے انتہا دولت کی بنیاد پر انہیں اب بھی معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔
شاہی رسم ورواج اور خاندانی طاقت کے مٹتے ہوئے آثاربرطانیہ کو اس کے سامراجی جاہ و جلال کے دور میں زندہ رکھنے کے لئے تو کافی ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاہی خاندان کی نوجوان نسل کے لئے یہ پرانے بندھن اب ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔