تاریخ

سب آلٹرن کلاس کی سوانح عمریاں

عامر رضا

پاکستان میں سوانح عمریاں لکھنےوالے زیادہ تر چار قسم کے افراد ہیں ۔ پہلی قسم میں ریٹائرد سول اور فوجی افسران شامل ہیں ۔ اکثرسابق فوجی افسران وہ ہیں جو مارشل لا لگانے میں سرگرم رہے اور اس مارشل لا کے طفیل اہم اتنظامی عہدوں پہ فائز بھی ہوئے اور بعد کو گنگا نہا کر پاک صاف ہو گئے ۔ یہاں تک پاکستان میں ڈکٹیٹرز نے بھی ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ اور ’’ان دی لائن آف فائر ‘‘ کے عنوان سے سوانح عمریاں لکھ خود کو بے گناہ اور قوم کا مسیحا ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ رائلٹی کی مد میں اچھا خاصہ پیسہ بنایا ۔سابقہ سول بیورکریٹس اور پولیس افسران کی بھی ایک بڑی کھیپ ہے جس نے رئیٹائرمنٹ کے بعد سوانح حیات لکھ نیک نامی کے ساتھ ساتھ بورژوا ادب شائع کروانے والوں ناشروں سے خوب پیسہ کمایا۔

داستان حیات رقم کرنے والوں میں ادیب صحافی،ٹی وی پروڈیوسرز، برادکاسٹرحضرات شامل ہیں (اداکاروں نے سوانح عمریاں کم ہی لکھی ہیں بس ملکہ پکھراج کی آٹو بائیو گرافی نظر سے گزری ہے )۔ یہ سوانح عمریاں ایگوسٹک تاثرات ے بھری ہوتی ہیں جن کا مقصد خود نمائی اور زبیائش ہوتا ہے۔ ان کتابوں میں ہمیں طبقاتی بینادوں پہ نظام کا پوسٹ مارٹم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

تیسری قسم میں بیگمات کی سوانح عمریاں شامل ہیں جو زمینداراور سرمایہ دار کلاس کی عائلی زندگی کی جھلکیاں دکھاتی ہیں۔ان سوانح عمریوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ ناشروں اور کتب فروشوں کے لیے سونے کی کان ہوتی ہیں ان کی قیمت سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہے ۔

اس کے بعد رائٹ ونگ کے سیاسی رہنماوں کی سوانح عمریاں ہیں جو ان کی اس سیاسی جدوجہد کا احاطہ کرتی ہیں جو انہوں نے ملک میں حصول اقتدار کے لیے کی ہوتی ہے۔ان کا مقصد بھی اقتدار کی دوڑ میں خود پارسا ثابت کرنا ہوتا ہے ۔وہ اس نظام کو ہی انقلاب گردانتے ہیں جس کا مقصد ان کے طبقاتی مفادات کو جلا بخشنا ہوتا ہے۔

ان سوانح عمریوں پر تقاریب منقعد کی جاتی ہیں ۔ادبی میلوں میں ان پر خصوصی سیشن منعقد کروائے جاتے ہیں اخبارات میں ان پر خصوصی تبصرے لکھوائے جاتے ہیں ٹاک شوز میں ان کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔ان میں کچھ ایسی ہوتی ہیں جن کے ابواب سرکاری درسی کتب میں شامل کئے جاتے ہیں ۔ انہیں پاپولر کلچر کا حصہ بنایا جاتا ہے ۔

یہ سوانح عمریاں قاری کو مڈل کلاس،اپر مڈل کلاس یا پھر اشرافیہ کی آنکھ سے سیاسی سماجی اور ثفافتی زندگی کو دکھاتی ہیں ۔ معاشرے کا پسا ہوا طبقہ سماجی سیاسی معاشی اور ثقافتی ڈھانچے کو کس طرح دیکھتا ہے ۔اس کے اردگرد نظام کی ساخت کسی طرح سے اس کی زندگی کو منظم طریقے سے تلخ کرتی ہے وہ ان سوانح عمریوں کا موضوع نہیں ہوتا۔

بھارت میں کچھ عرصہ سے سب آلٹرن کلاس کی طرف سے جو سوانح عمریاں سامنے آئی ہیں انہوں نے اس سٹریکچرل وائنلس کو بے نقاب کیا ہے جو سماجی ،سیاسی،معاشی اور معاشرتی سطح پر برپا کیا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں اوم پرکاش الکمی کی سوانح عمری ’’جوٹھن‘‘ اور بلبیر مادھوپوری کی ’’شانگیھارخ‘‘ سب آلڑن کلاس کی زندگی کی مشکلات اور کٹھنائیوں کی جھلک دکھاتی ہیں ۔یہ سوانحی عمریاں اس سٹریکچرل وائلنس کو بے نقاب کرتی ہیں جو معاشرے میں ذات پات مذہب اور قوانین کا سہارا لیکر برپا کیا جاتا ہے ۔

پاکستان میں ہمیں حاشے سے باہر دھکیلے جانے والے لوگوں کی حالت اور سماجی ومعاشی جبر کی تصویر ان آٹو بائیوگرافیز میں نظر آتی ہے جو کہ مزدور طبقے رہنماوں یا پھر کمیونسٹ ورکرز نے تحریر کی ہیں ۔لیکن ان آٹو بائیوگرافیز کو نہ تو اخبارات کے کالموں میں جگہ ملتی ہے اور نہ ہی ان پر ادبی میلوں پہ خصوصی نشتسیں معنقد کی جاتی ہیں ۔ان آٹو بائیوگرافیز پر یونیورسٹیوں کے اساتذہ نہ تو ریسرچ کرواتے ہیں اور ہی ناقداین ان کی تینقید لکھتے ہیں ۔ ایسی آٹو بائیو گرافیز ناشروں اور کتب فروشوں کے لیے سونے کی کان سے زیادہ درد سر بن جاتی ہیں کہ ان کو بیچا کیسے جائے۔

ایک سال قبل علمی آوارہ گردی کرتے ہوئے مسٹر بک ایف سکس میں بیشر بختیار کی سوانح عمری مزدور تحریک اور میں نظر آئی ۔کتاب اٹھا کر جب کاونٹر پہ پہنچا تو کاونٹر والے کے چہرے پہ آنے والی خوش کو پڑھے بنا نہیں رہ سکا جو کہہ رہی تھی چلو سالوں بعد ایک تو بکی ۔یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے جو کہ انیس سو ترانوے میں شائع ہوا تھا اس کی قیمت بیس روپے تھی لیکن مجھے ستر روپے میں ملی ۔یہ سوانح حیات تقسیم سے پہلے کی مزدور جدوجہد کی جھلک دکھاتی ہے ۔

اسی طرح واہ آرڈیننس فیکٹری کے مزدور رہنما تاج لالا کی خودنوشت’ زندگی کا انوکھا سفر ‘ اس کے ناشر نے تحفے کے طور پردی۔حالیہ چند سالوں میں کمونسٹ رہنماوں کی سوانح حیات منظر عام پر آئی ہیں جن میں عبدالروف ملک کی ’’سرخ سیاست کتاب زیست کے چند کٹ پھٹے اوراق‘‘، مزدور تحریک کے رہنما کامریڈ چودھری فتح محمد کی جو ’ہم پہ گزری‘ بی ایم کٹی کی ’خود اختیار کردہ جلا وطنی‘ شامل ہیں یہ وہ سوانح عمریاں ہیں جو پاکستان میں مزدور،کسانوں اور ورکرز کی جد وجہد کا احوال بیان کرتی ہیں اور اس ساختیاتی تشدد کو بے نقاب کرتی ہیں جو اس ملک کے مزدور طبقے پر کیا جاتا ہے ۔

قابل غوراور فکر طلب بات یہ ہے کہ ان سوانح عمریوں کو میں سٹریم میڈیا اور بورژوا ادبی میلوں میں زیر بحث نہیں لایا جاتا اور نہ ہی ان کی تشریح کی جاتی ہے ۔نہ ہی سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں ان کےاقتباس ملتے ہیں ۔

دادا امیر حیدر نے اپنی خود نوشت چینز ٹو لوز میں لکھا کہ انقلاب کے بعد کے لینن نے بالشویک پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ انقلاب کے بارے میں اپنے تجربات رقم کریں تو اکثر نے کہا کہ وہ نیم خواندہ ہیں اور کیسے لکھ سکتے ہیں ۔جس نے جواب میں لینن نے کہا کہ گرائمر کی غلطی بڑا مسئلہ نہیں ہے بڑا مسئلہ سیاسی طور پہ غلط ہونا ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گرائمر اور ڈکشین کے لحاظ سے درست اور سیاسی طور پر غلط لکھی جانے والی سوانح عمریاں بیسٹ سیلرز بن رہی ہیں ۔حاشے سے باہر دھکیلے جانے والے ، مزدور، کسانوں اور ورکرز کا بیانیہ بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے ۔

Amir Raza
+ posts

.عامر رضا ڈرامہ نگار اور پروڈیوسر ہیں۔ مارکس سے خائف لوگ اور سیاست سنیما سماج کے مصنف ہیں.