فاروق سلہریا
اگر کسی لبرل، مولوی یا جعلی انقلابی کی جمہوریت پسندی کا امتحان لینا ہو تو اسے کہئے کہ وہ ”سب کی تنخواہ برابر ہونی چاہئے‘‘ کے مطالبے کی حمایت کرے۔
لبرل جو انسانی حقوق اور برابری کی بات کرتے ہیں فوراً نام نہاد میرٹ کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کریں گے۔ مولوی (چاہے ان کا تعلق کسی بھی عقیدے یا مذہب سے ہو) رضائے الٰہی کا سہارالیں گے۔ جعلی انقلابی بھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگیں گے۔
ایک فوری رد عمل یہ ہو گا: ایک ڈاکٹر جو اتنی مشکل پڑھائی کر کے ڈاکٹر بنا، اس کی تنخواہ صفائی مزدور کے برابر کیسے ہو سکتی ہے جو کبھی اسکول ہی نہیں گیا؟ صفائی مزدور کبھی اسکول کیوں نہیں گیا؟ اس نقطے کو تو بحث کا حصہ ہی نہیں بنایا جاتا۔ آئیے پہلے سالہا سال کی پڑھائی والی بات کا تجزیہ ہو جائے۔ میں ایک چشم دید واقعہ کی بنیاد پر اپنی دلیل پیش کروں گا۔
تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے جب میں لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز (سواس) میں پڑھ رہا تھا۔ اس یونیورسٹی کے صفائی مزدور وں کی اکثریت کا تعلق لاطینی امریکہ کے ممالک سے تھا۔ تقریباً بیس سال قبل، ان کو ایک ایسی فرم کے حوالے کر دیا گیاجس کا تعلق ”سواس“ سے نہیں تھا۔ اب وہ سواس کے ملازم نہیں تھے بلکہ اس فرم کے ملازم تھے جو نہ تو ان کو پکی نوکری دے رہی تھی نہ ہی یونین سازی کا حق۔ ان مزدوروں نے جدوجہد شروع کی کہ”سواس“ ان کو واپس اپنے سٹاف کا حصہ بنائے۔ اس جدوجہد کے سلسلے میں انہوں نے آٹھ سال پہلے ہڑتال کر دی۔
ہڑتال کے تیسرے دن کیمپس بند کرنا پڑا کیونکہ عدم صفائی اور بدبو کی وجہ سے کیمپس کی کسی بھی عمارت میں داخل ہونا ممکن نہیں رہا تھا۔ یاد رہے ”سواس“ کو دنیا کی بہترین دانش گاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی وقت اس کے تعلیمی سٹاف اور پی ایچ ڈی سکالرز سمیت یہاں چار پانچ سو پروفیسر اور ڈاکٹر حضرات موجود ہوتے ہیں۔ بلا شبہ ان میں سے بہت سارے پروفیسر اور پی ایچ ڈی اسکالرز کو دنیا کے قابل ترین لوگوں میں شمار کیا جا سکتا ہے مگر ان سب کی قابلیت کے باوجود کیمپس بند کرنا پڑا۔
بہ الفاظِ دیگر: (۱) ذہنی محنت جسمانی محنت سے افضل نہیں۔ (۲) محنت ایک سماجی عمل ہے، ذہنی محنت جسمانی محنت کے بغیر ممکن نہیں، ایک شعبہ دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتا اور سارے کام برابر اہم ہیں۔ ڈاکٹر بغیر پیرا میڈیکل سٹاف کے، انجینئرز بغیر ٹیکنیشنز کے، پائلٹ بغیر گراؤنڈ عملے کے۔ ۔ ۔ گویا کوئی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان بغیر دیگر محنت کشوں کے اپنا کام نہیں کر سکتا۔
اکثر یہ بات ہم سوچنے سے قاصر رہتے ہیں کہ سائنس کی ہوشربا ترقی کے باوجود سماج کا بوجھ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ان کسانوں کے کندھوں پر ہے جو شائد پتھر کے سماج میں رہ رہے ہیں۔ بھوکے ننگے کسان اگر اناج نہیں اگائیں گے تو ناسا میں بیٹھے انجینئر بھوکے مر جائیں گے۔
سرمایہ دارانہ نظام پہلے محنت کشوں کی اکثریت کو انسانیت، جمہوریت، بنیادی ضرورتوں کی تکمیل اور ثقافتی ترقی سے محروم رکھتا ہے پھر اس سماجی نا ہمواری پر نظریاتی غلاف چڑھانے کے لئے ”میرٹ“ کا بہانہ بنانے لگتا ہے۔ میرٹ سے ایک لطیفہ بھی یاد آ گیا۔ نواز شریف جب پہلی بار وزیر اعظم بنے تو پنجاب کا وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کو بنا دیا جو اس زمانے کے عثمان بزدار تھے۔ ان دنوں چونکہ نواز شریف لاڈلے تھے، اس لئے ان کے نعرے لگ بھگ وہی تھے جو بعد ازاں عمران خان نے لگانے شروع کئے۔ ایک نعرہ تھا: میرٹ!
قصور سے تعلق رکھنے والے ایک سیاستدان ہیں طالب نکئی۔ ایک دفعہ کسی نوجوان کو نوکری دلوانے کی سفارش لے کر غلام حیدر وائیں کے پاس گئے۔ وائیں صاحب نے نوجوان کی اسناد دیکھیں تو جواب دیا کہ میرٹ کے مطابق اس نوجوان کو نوکری نہیں مل سکتی۔ نکئی صاحب نے غصے بھرے لہجے میں کہا ”وائیں صاب کیہہ تسی تے میں میرٹ تے آئے آں“۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔