دنیا

10 سال میں 153 ممالک اندر 7000 مظاہرے، 4800 افراد ہلاک ہوئے

حارث قدیر

2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد گزشتہ 10 سالوں کے دوران دنیا بھر میں عوامی ردعمل میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ نے عالمی معاشی بحران کی شدت میں تیزی لائی وہیں بیروزگاری کے پھیلاؤ اور جمہوری و سیاسی آزادیوں پر قدغنیں بھی بڑھنا شروع ہوئیں اور دنیا بھر میں احتجاجی تحریکیں بھی عروج پر ہیں۔

الجزیرہ پر شائع ہونیوالی ایک رپورٹ میں لبنان سے لیکر بھارت اور ہانگ کانگ تک دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کا جائزہ لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2020ء میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن نے دنیا بھر کے ممالک میں احتجاج کو جنم دیا۔ لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر ملازمتوں، جمہوری آزادیوں، معاشرتی انصاف کے حصول اور بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خراب معاشی صورتحال اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے مزید احتجاجی تحریکوں کے شروع ہونے کا امکان ہے۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران 153 ممالک میں لگ بھگ 7 ہزار احتجاجی مظاہرے ریکارڈ کئے گئے، زیادہ تر مظاہروں میں تعداد سینکڑوں سے لیکر ہزاروں مظاہرین پر مشتمل رہی ہے۔ 2010ء سے 2020ء کے 10 سالوں میں دنیا بھر میں کم از کم 900 مظاہرے ایسے ہوئے جن میں 10 ہزارسے زیادہ مظاہرین شریک ہوئے۔

فرانس پیلی جیکٹ والی تحریک (یلو ویسٹ موومنٹ) کے ساتھ ان ممالک میں شریک ہے جہاں وسیع پیمانے پر احتجاج ہوا۔ حکومت مخالف ہڑتالیں فیول ٹیکس اور نجکاری کے خلاف 2018ء میں شروع ہوئی تھیں۔

لبنان میں اکتوبر 2019ء میں شروع ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، معاشی حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں، مظاہرین بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ملک کی معاشی بدحالی نے تقریباً 6 ملین لوگوں کو، جو کل آبادی کا نصف پر مبنی ہے، غربت سے دوچار کر دیا ہے۔

ہانگ کانگ میں ملزمان کی حوالگی کا بل منظور کئے جانے کے خلاف شروع ہونیوالے احتجاج کو روکنے کیلئے چین کی مداخلت کے بعد تحریک کا آغازہوا۔ یہ تحریک 2 سال تک جاری رہی، ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا اور ہانگ کانگ ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار ہے۔

دنیا بھر میں کینیا، جرمنی، برطانیہ، یونان، بنگلہ دیش، نائیجیریا اور یمن سمیت متعدد دیگر ملکوں میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ 26 نومبر 2020ء کو بھارتی ٹریڈ یونینوں کی کال پر زرعی شعبے کی کارپوریٹ اصلاحات کیلئے منظور کئے جانے والے 3 کالے قوانین کے خلاف 24 گھنٹے کی عام ہڑتال میں 25 کروڑ سے زائد محنت کشوں نے شرکت کی۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔

گزشتہ چار ماہ سے دسیوں ہزار کسانوں نے ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کے ارد گرد شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ نئے قوانین انہیں بڑی کارپوریشنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینگے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 9 اگست 2020ء سے بھارت بھر میں کسانوں کے 2800 سے زائد احتجاج ہو چکے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاریخی طور پر کچھ بڑی احتجاجی تحریکوں نے قومی حدود کو بھی عبور کیا ہے اور لاکھوں افراد کو ایک مقصد پر متحرک کیا۔ 2003ء میں دنیا بھر کے 650 سے زائد شہروں میں کم از کم 60 لاکھ افراد نے امریکی زیر قیادت اتحاد کے ذریعے عراق پر حملے کے خلاف احتجاج کیا۔ 2019ء میں ایک اندازے کے مطابق 185 ملکوں میں دنیا کے سب سے بڑے ماحولیاتی آلودگی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا اور حکومتوں سے ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے اقدامات کا مطالبہ کیا۔ لاکھوں افراد انصاف اور احتساب کے مطالبے پرآن لائن درخواستوں اور سوشل میڈیا مہموں میں شامل ہو چکے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق 2010ء سے 2021ء کے درمیان دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں میں 4800 افراد ہلاک ہوئے۔ 90 فیصداحتجاج پرامن رہے لیکن کچھ کو پرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

گزشتہ اتوار کے روز میانمار میں اقتدار پرفوج کے قبضے کے خلاف احتجاج کرنیوالے ہجو م پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم 114 افراد ہلاک ہوئے۔ اگست 2013ء کو مصر میں 800 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔ تیونس، بحرین، لیبیا، یمن اور شام میں بھی سینکڑوں مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔