فاروق سلہریا
ذرا یہ ویڈیو ملاحظہ کیجئے:
معروف پشتو چینل ’خیبر نیوز‘ کی مندرجہ بالا ویڈیو میں خیبر نیوز کے نامہ نگار پشتو میں ہمیں بتا رہے ہیں: ”خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہمیشہ اپنے کارناموں کی وجہ سے خبروں میں رہتا ہے۔ اپنے تازہ کارنامے کی وجہ سے ہسپتال ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہے۔ تازہ کارنامے کا عنوان ہے چف والی سرکار۔ (پشاور کے نواح میں واقع) بڈابیر کی معروف شخصیت قاری افتخار المعروف چف والی سرکار نے اس ہسپتال کے کرونا وارڈ پر ریڈ کیا اور کرونا مریضوں پر پھونک کے ذریعے دم کیا۔ یاد رہے اس مشہور زمانہ ہسپتال میں پی آر او کی اجازت کے بغیر میڈیا کے لوگ بھی داخل نہیں ہو سکتے۔ چف والی سرکار کو نہ صرف داخلے کی پوری آزادی دی گئی ہے بلکہ انہیں اپنی مارکیٹنگ کا موقع بھی فراہم کیا گیا ہے۔ مریضوں کو دم کرنے کے بعد چف والی سرکار نے مریضوں میں اپنے وزیٹنگ کارڈ بھی بانٹے۔ اس طرح نہ صرف چف والی سرکار کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا بلکہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے کھاتے میں ایک اور کارنامہ بھی لکھا جائے گا“۔
اس ویڈیو کو دیکھنے اور اس کمنٹری کو سننے کے بعد چند فیصلے تو ضرور کرنے چاہئیں۔ اؤل یہ کہ تحریک انصاف کے ’نئے خیبر پختونخواہ‘ میں میڈیکل کالجوں اور سرکاری ہسپتالوں کو بند کر دیا جائے۔ ’Austerity‘ کے اس دور میں اربوں روپے کا ضیاع چہ معنی دارد کہ جب چف والی سرکار با آسانی دستیاب ہیں؟
دوم، چف والی سرکار کو ’طارق جمیل ایوارڈ برائے حسن اداکاری‘ سے ضرور نوازا جائے۔ موصوف علاج کرونا کا کر رہے ہیں مگر خود انہوں نے ماسک بھی پہن رکھا ہے اور حفاظتی لباس بھی۔
سوم، لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ان ڈاکٹروں کے لائسنس کینسل کر کے انہیں پشاور کے قریب ہی واقع مدرسہ حقانیہ روانہ کر دیا جائے۔ ان کے لئے زیادہ مناسب جگہ مدرسہ حقانیہ ثابت ہو گی۔
ابھی یہ ویڈیو وائرل نہیں ہوئی۔ اگر یہ ویڈیو وائرل ہو گئی تو یقینا ایسے یوتھیوں کی ایک مناسب تعداد لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے اس کارنامے کا بھر پور دفاع کرے گی۔ ایسے تمام یوتھیوں سے التماس ہے کہ وہ عمران خان سے کہہ کر چف والی سرکار کو شوکت خانم ہسپتال میں تعینات کروا دیں۔ مزید یہ کہ ایسے یوتھئے ویکسین کی بجائے چف والی سرکار سے دم کروائیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔