دنیا

بھارت سے مذاکرات کے لئے آرٹیکل 370 کی بحالی اب پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا

حارث قدیر

پاکستانی ذرائع نے پاک بھارت مذاکرات کی تصدیق کی ہے لیکن انہیں ’سٹرکچرڈ بیک چینل‘ مذاکرات کی بجائے ’ان سٹرکچرڈ رابطوں‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا جنگی ماحول میں بھی جاری رہتا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق ایسے ذرائع جن کو اس صورتحال کا علم ہے نے الجزیرہ سے بات کی ہے۔ ان ذرائع نے باقاعدہ دو طرفہ بات چیت کیلئے بھارت کیلئے کچھ اقدامات کی فہرست پر بھی بات چیت کی ہے اور ساتھ ہی آرٹیکل 370 کو دوبارہ بحال کئے جانے کے مطالبہ سے دستبرداری کا بھی عندیہ دیا ے۔

بھارت کی جانب سے ٹھوس اقدامات میں پہلا اقدام بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کو روکنا ہے، گزشتہ سال اپریل میں نئے ڈومیسائل قانون کا نفاذ کیا گیا تھا جس کے تحت اب بھارت سے تارکین وطن جموں کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔

دوسرے اقدام کے طور پر بھارتی حکام کو آرٹیکل 370 کی منسوخی اور لاک ڈاؤن کے نفاذ کے دوران اور پہلے گرفتار کئے گئے سیاسی اور دوسرے قیدیوں کو رہا کرنا پڑے گا۔

تیسرا اقدام متنازعہ خطے میں مواصلات اور نقل و حرکت پر پابندی کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

چوتھا اقدام بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کو ریاست کے مکمل حقوق دینا اور تسلیم کرنا کہ یہ پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ علاقائی تنازعہ سے مشروط ہے۔

پانچواں اقدام بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں آرٹیکل 370 کو غیر فعال کرنے کے بعد لاک ڈاؤن کے نفاذ کیلئے تعینات کئے گئے لاکھوں سکیورٹی فورسز اہلکاروں کی تعداد میں کمی کرنا ہے۔

ان ذرائع کے مطابق اگلا اقدام یہ ہے کہ بھارت جو بھی اقدامات کرتا ہے وہ کشمیریوں کیلئے بھی قابل قبول ہونے چاہئیں، اس کے بغیر پاکستان کے لئے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔

ادھر بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ پاکسانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے موجودہ مواصلات کی تفصیلات پر تبصرہ کرنے کی بجائے پاکستان کا موقف دہرایا اور مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی ذمہ داری بھارت پر ڈال دی۔ انکا کہنا تھا کہ ”کسی بھی معنی خیز اور نتیجہ خیز بات چیت کیلئے سازگار اور قابل ماحول بنانا ہو گا۔ بھارت نے 5 اگست کی غیر قانونی اور یکطرفہ کارروائیوں کے ذریعے ماحول خراب کر دیا ہے اس لئے اب بھارت پر ہے کہ ایسا ماحول بنائے کہ جس کے نتیجہ میں معنی خیز بات چیت ہو سکے۔“

دوسری طرف الجزیرہ کے مطابق پاکستانی ذرائع نے آرٹیکل 370 سے متعلق گزشتہ 2 سال کے پاکستانی موقف سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ دیا ہے۔

ایک پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ ”آرٹیکل 370 ہمارا سر درد نہیں ہے کیونکہ ہم نے کبھی بھی ہندوستان کے آئین کے کشمیر پر لاگو ہونے کو تسلیم نہیں کیا۔ چاہے وہ 370 واپس لائیں یا نہیں، بس ہمیں یہ بتائیں کہ کیا کشمیریوں کی شناخت برقرار ہے؟ کیا کشمیریوں کی زندگی کو بہتر مقام پر لایا گیا ہے؟ کیا آپ واضح طور پر پہچان رہے ہیں کہ یہ بین الاقوامی تنازعہ کے تحت متنازعہ علاقہ ہے یا نہیں؟ اس کے علاوہ آپ اسے کچھ بھی کہتے ہو، اس سے پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔“

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 370 پر عملدرآمد کے مطالبے کو ترک کرنے سے مذاکرات میں مزید پیش رفت کے امکانات کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کار ہیپی مون جیکب نے کہا کہ ”موجودہ پاکستانی سوچ میں آرٹیکل 370 کی نمایاں حیثیت نہیں ہے اس سے مجھے یہ لگ رہا ہے کہ حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ بھارت کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستانی مطالبہ میں سے کوئی مطالبہ انہونا ہے، یہ تمام شرائط قابل عمل ہیں۔“

واضح رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان 2019ء کے اوائل سے تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جب بھارتی فورسز پر ایک دہشت گرد حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا تھا اور بعد ازاں 5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ کارروائی کے تحت اپنے زیر انتظام جموں کشمیر کے علاوہ کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر کے اسے مرکز کے زیر اہتمام 2 علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

دونوں ملکوں کے درمیان 2 سال کے بعد 25 فروری 2021ء کو اچانک کنٹرول لائن پر سیز فائر لائن پر 2003ء کے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے اتفاق ہوا۔ رواں سال ہی دونوں ملکوں کے وزرا اعظم کی طرف سے تہنیتی خطوط کا تبادلہ بھی ہوا اور واٹر کمشنرز کی ملاقات بھی ہوئی۔ جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کیلئے ہونے والے اتفاق کے بعد عالمی میڈیا اداروں میں پاک بھارت خفیہ مذاکرات کے حوالے سے مختلف خبریں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔

خفیہ مذاکرات کے ذریعے تعلقات کی بحالی کے حوالے سے خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے پہلے تجارتی تعلقات بحال کرتے ہوئے کپاس اور چینی کی درآمد کی منظوری دی اور اگلے ہی روز یہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارت مسئلہ کشمیر کے حل سے جوڑ دی گئی۔ اس نئی پیش رفت کے بعد ایک مرتبہ پھر خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں دہلی میں موجود ذرائع کے حوالے سے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے پاک بھارت خفیہ مذاکرات کی تصدیق کی گئی۔ رائٹرز کی رپورٹ کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ نے خفیہ مذاکرات کی تردید کر دی تھی، جس کے بعد ’الجزیرہ‘ نے پاکستان میں موجود ذرائع کے حوالے سے نئی رپورٹ شائع کر دی ہے۔ تاہم رائٹرز اور الجزیرہ کی رپورٹس میں ایک قدر مشترک ہے کہ پاکستان کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ رائٹرز کی رپورٹ میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر یہ بھی کہا گیا تھا کہ بھارت بھی عسکری سرگرمیوں کیلئے پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرائے گا یا کسی بھی نئے مسلح حملے کی صورت یہ بات چیت کاسلسلہ ختم نہیں کیا جائے گا۔

الجزیرہ سے گفتگو میں پاکستانی ذرائع نے بتایا کہ ”پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ رابطے ’سٹرکچرڈ بیک چینل‘کی شکل میں نہیں ہیں۔ بیک چینل ایک ایسا محاذ ہوتا ہے جہاں مخصوص افراد کو آگے بڑھنے اور کچھ نتائج حاصل کرنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہ کچھ نہیں ہو رہا۔ رابطوں کے دیگر چینل ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، یہاں تک کہ بدترین اوقات میں بھی رابطوں کے یہ چینل یا انٹیلی جنس چینل کھلے رہتے ہیں۔“

ایک ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ”پاکستان نے بھی مثبت اقدامات اٹھائے ہیں اور مثبت اقدامات جاری رکھیں گے لیکن یہ یکطرفہ نہیں ہو سکتے۔“

پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور بیک چینل رابطوں کے حوالے سے تواتر کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں آنے والی خبروں سے جہاں یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ بیک چینل پر رابطے بھی موجود ہیں اور دونوں اطراف حکومتوں کے اقدامات بھی باہمی اتفاق رائے سے کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی اور دشمنی کا یہ کھیل کافی پرانا ہے اور اس بحران زدہ نظام کی موجودگی میں سیاسی و معاشی بحران سے دوچار یہ نحیف اور کمزور ریاستیں نہ تو مستقل بنیادوں پر امن قائم کر سکتے ہیں اور نہ ہی کھل کر جنگ کر سکتے ہیں۔ نہ ہی مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی ایک مسئلہ کو حل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم سامراجی تجارتی اور تذویراتی مفادات میں تبدیلیوں کے باعث معمولی انتظامی رد و بدل اور تعلقات کی بنیاد کو نئی جہتیں فراہم کرنے جیسے اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے اس خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری لانا مقصود نہیں ہے بلکہ حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کو تیز کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ اقتدار کو طوالت دینا ہی حتمی اور آخری منزل ہے۔

اس خطے کے سیاسی، معاشی اور جغرافیائی مسائل کے خاتمے کی ذمہ داری اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے کندھوں پر ہے، جو سرمایہ داری کے خاتمے اور رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔