خبریں/تبصرے

پاکستان میں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی: سالانہ کتنی نوجوان خواتین اس کا شکار بنتی ہیں؟

حارث قدیر

پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کے جبری طور پر مذہب تبدیل کروائے جانے کے واقعات تسلسل کے ساتھ میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، تاہم ان واقعات کے اعداد و شمار اور واقعات سے جڑی معلومات کے درست یا غلط ہونے کی تصدیق بھی ایک دشوار کام ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی رواں سال جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران 31 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پرمجبور کئے جانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

تاہم 2017ء کی سالانہ انسانی حقوق رپورٹ میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے ’نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس‘ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین اور لڑکیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔

گزشتہ روز ’روزنامہ جدوجہد‘ میں بھی ’زینگر‘ پر شائع ہونے والی معروف صحافی ’کنور شاہد خلدون‘ کی رپورٹ میں استعمال ہونے والے اعداد و شمار کے حوالہ سے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جسے بعد ازاں ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔

مذکورہ رپورٹ میں بھی استعمال ہونے والے اعداد و شمار بھی انسانی حقوق کمیشن کی 2017ء میں شائع ہونیوالی سالانہ رپورٹ سے حاصل کئے گئے تھے۔ تاہم انسانی حقوق کمیشن کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے ’روزنامہ جدوجہد‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعداد و شمار بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں بھی ایک مرتبہ یہ اعداد و شمار استعمال کئے جا چکے ہیں لیکن یہ حقیقی نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق 31 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ سالوں کے اعداد و شمار کو بھی سامنے رکھتے ہوئے تناسب نکالا جا سکتا ہے۔ گو کہ بہت سارے کیس رپورٹ بھی نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود سالانہ 1 ہزار واقعات کے اعداد و شمار حقیقت پرمبنی نہیں ہیں۔

’روزنامہ جدوجہد‘ نے انسانی حقوق کمیشن کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق کے رابطہ کرنے کے بعد یہ خبر ویب سائٹ سے ہٹا دی۔

اس سلسلے میں کنور خلدون شاہد کا موقف جاننے کی بھی کوشش کی گئی۔ کنور خلدون شاہد نے بھی مختلف رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ صرف اپنے موقف کی درستگی کے لئے مختلف ذرائع کا حوالہ دیا ہے بلکہ انہوں نے دو ایسے اداروں کی تحقیق کا بھی حوالہ دیا ہے جن میں ان اعداد و شمار سے اختلاف کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ سوال اس قدر الجھا ہوا ہے کہ حتمی تو کیا قابل اعتبار اعداد و شمار حاصل کرنا بھی نا ممکن سا کام ہے مگر یہ بات طے ہے کہ ایسی خواتین کی تعداد میڈیا میں رپورٹ ہونے والے واقعات سے کہیں زیادہ ہے جو جبراً مذہب تبدیل کرتی ہیں۔ انہوں نے ایڈوکیٹ بھگوان داس بھیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چار سال میں بھگوان داس بھیل نے پانچ سو خواتین کے مقدمے عدالت میں دائر کئے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل صورتحال کتنی گھمبیر ہے۔

انگریزی زبان میں کنور خلدون شاہد کی خبر اس لنک پر پڑھی جا سکتی ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔