لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جدید ترکی کی علامت سمجھے جانے والے تقسیم سکوائر میں جمعہ کے روز استنبول کے تقسیم سکوائر میں ایک نئی مسجد کا افتتاح کیا ہے۔
اے پی کے مطابق 3000 نمازیوں کی گنجائش والی اس مسجد میں پہلی عبادت کیلئے طیب اردگان درجنوں دیگر عبادت گزاروں کے ہمراہ شامل ہوئے۔ تقسیم سکوائر 2013ء میں حکومت مخالف مظاہروں کا مقام بھی تھا۔ ان مظاہروں کا آغاز ملحقہ ’گیزی پارک‘ میں حکومت کے تعمیراتی منصوبوں کے خلاف ہوا تھا۔
18 سال سے ترکی میں برسر اقتدار مذہبی جماعت کے رہنما طیب اردگان نے اپنے حامیوں سے اس مسجد کے قیام کا وعدہ کر رکھا تھا۔
دوسری طرف نقاد اس مسجد کی تعمیر کو مصطفی کمال اتاترک کی میراث کو نقصان پہنچانے کے اردگان کے منصوبے کے ایک حصے کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اتاترک نے سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سیکولرازم پر مبنی جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا تھا۔ تقسیم سکوائر میں ایک ثقافتی مرکز تھی تھا جسے اتاترک کے نام سے موسوم کیا گیا تھا اور اسے ورثے کی علامت کے دور پر دیکھا جاتا تھا، اب اس ثقافتی مرکز کو منہدم کر کے اس کی جگہ ایک نیا ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ہے جس میں اوپیرا ہاؤس ہوگا۔
کئی دہائیوں سے یہ چوک شہر کا ثقافتی مرکز بھی رہا اور پولیس اور مظاہرین کے مابین سڑکوں پر تصادم کا بھی مرکز رہا ہے۔ 1977ء میں یوم مئی کی تقریب کے دوران قریبی عمارت سے ہجوم پر گولیاں چلائی گئی تھیں جس کی وجہ سے چوک میں 34افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
2013ء میں اردگان کی حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز بھی اسی چوک سے ہوا تھا۔ اس ملک گیر احتجاج کے دوران ایک درجن سے زاہد مظہرین ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔ حالیہ برسوں میں تقسیم سکوائر پر احتجاجی مظاہروں کے انعقادپر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تاہم طیب اردگان نے دعویٰ کیا کہ گیزی پارک میں تعمیرات کے خلاف مظاہرے درحقیقت مسجد کی تعمیر کو روکنے کے منصوبے کا حصہ تھے۔