لاہور (حارث قدیر) کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری اور معروف انقلابی رہنما طاروق طارق نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کے مطالبات کو منظور کرنے کی بجائے تشدد اور ریاستی جبر کی پالیسی کو حکومت کا فسطائی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”جب آن لائن تدریس کی گئی ہے تو آن لائن ہی امتحانات بھی لئے جانے چاہئیں، دنیا کے بیشتر ممالک میں کورونا وبا کی وجہ سے طلبہ کو سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر پروموٹ کیا گیا ہے لیکن عمران حکومت طلبہ کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی مرتب کرنے کی بجائے طلبہ کو ذہنی دباﺅ کا شکار کر کے خودکشیوںپر مجبور کر رہی ہے۔“
’روزنامہ جدوجہد ‘ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ”جمعرات کے روز اسلام آباد میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر تشدد کیاگیا اور گرفتاریاں کی گئیں، لاہور میں بھی طلبہ کو تشدد اور گرفتاریوں کا نشانہ بنایا گیا، اس کے علاوہ طلبہ کے نمائندوں کو رات کے اندھیرے میں اغوا کر کے ہراساں کئے جانے جیسے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جو ریاست کا ایک فسطائی اقدام ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”یہ حکومت خود سے کوئی پالیسی بنانے کی اہل نہیں ہے، بے تکی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں اور ان پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں زبردستی جابرانہ پالیسیاں ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر رد عمل زیادہ سخت ہو تو پھر فوری یو ٹرن لیا جاتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات کی وجہ سے جو کام درست بنیادوں پر کیا جاسکتا ہے اسے بھی خراب کر دیا جاتا ہے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”طلبہ گزشتہ لمبے عرصے سے سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر فزیکل امتحانات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں آن لائن پڑھایا گیا ہے اس لئے امتحانات بھی آن لائن ہی لئے جائیں بصورت دیگر انہیں اگلی کلاسوں میں ترقیاب کیا جائے۔ حکومت نے طلبہ کے موقف کو سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے طلبہ کو مجبوراً احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ طلبہ کا مستقبل داﺅ پرلگا ہوا ہے اور حکمران دھونس اور جبر کی پالیسی سے انہیں خودکشیوں پرمجبور کر رہی ہے۔“
فاروق طارق کا کہنا تھا کہ ”گزشتہ دنوں انہی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے شیخوپورا میں ایک طالبعلم نے لائیو ویڈیو بناتے ہوئے خود کشی کر کے حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمارطالبعلم ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے کیونکہ انکا مستقبل داﺅ پر لگا ہوا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے نتائج پر ہی تمام مستقل کا انحصار ہوتا ہے، جامعات اور میڈیکل کالجز میں داخلوں کے انٹری ٹیسٹ بھی جلد ہیں اور ساتھ ہی امتحانات کے حوالے سے ہی طلبہ بھی کنفیوز ہیں اور والدین بھی تذبذب اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔“
انکا کہنا تھا کہ ”طلبہ کو خدشہ ہے کہ فزیکل امتحانات میں وہ پرچے بنائے جائیں گے جو کچھ پڑھایا ہی نہیں گیا، جب تدریس آن لائن کی گئی ہے تو کیسے فزیکل امتحانات میں وہ اچھے نتائج دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فزیکل امتحانات میں اختیاری مضامین کو گزشتہ نتائج کی بنیاد پر نمبر دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ حکومتی پالیسی ان خدشات سے بھرپور ہے کہ طلبہ مستقبل میں میرٹ پر داخلے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس کے علاوہ ایک محدود وقت میں ہی طلبہ کو انٹرمیڈیٹ کے امتحانات اور انٹری ٹیسٹ کی تیاری یکے بعد دیگرے کرنی پڑے گی۔ یہی وہ دباﺅ ہے جس کی وجہ سے طلبہ پریشانی میں مبتلا ہیں اور نوبت خودکشیوں تک پہنچ چکی ہے۔“
ایک سوال کے جواب میں فاروق طارق کا کہنا تھا کہ ”فی الحال تو بہت محدود احتجاج کئے گئے ہیں، طلبہ خود رو تحریک میں منظم ہو رہے ہیں، ریاست جبر اور تشدد کے ذریعے سے طلبہ کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے طلبہ یونین کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر منظم ہیں، کسی طلبہ تنظیم میں بھی منظم نہیں ہیں اس لئے ابھی انکے احتجاج بھی منظم نہیں ہیں۔ اگر حکومت نے انکے مطالبات کو سنجیدہ نہ لیا تو یہ احتجاج نہ صرف مزید منظم ہونگے بلکہ طلبہ کی وسیع تر پرتیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے احتجاج کرنے والے طلبہ کی اکثریت کی بھی سڑکوں پر احتجاج میں شریک ہونا شروع ہو جائیگی۔“
انکا کہنا تھا کہ ”پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن سمیت دیگر مین سٹریم پارٹیوں کی قیادتوں کے علاوہ میڈیا نے بھی طلبہ کے حق میں بیانات دیئے ہیں۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں اور قیادتیں بھی طلبہ کے ساتھ شانہ بشانہ موجود ہیں۔ نوجوان اپنے عمل کے تحت سیکھیں گے اور جو ریاست اور حکومت انہیں جبر کے ذریعے سے توڑنا چاہتی ہے وہ ان کے راستے میں رکاوٹ بننے کی اہلیت کھو دے گی۔ طلبہ اپنی طاقت کا احساس نہ ہونے اور سیاسی عمل میں کسی طرح کی بھی شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اپنے مسائل کے حل کےلئے اس طرح سے منظم احتجاج کا آغاز نہیں کر سکیں گے لیکن یہ صورتحال ہمیشہ نہیں رہے گی۔ حکومتی پالیسیوں سے مایوس ہو کر زندگی کو ختم کرنے کی بجائے ظلم اور استحصال کے خلاف زندگی کی جدوجہد کرنا ہی طالبعلموں اور محنت کشوں کی تاریخی میراث ہے۔ طلبہ اپنے اس تاریخی کردار کی نہ صرف اہمیت کو سمجھیں گے بلکہ وہ ملک بھر میں منظم ہو کر اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرینگے۔“
انکا کہنا تھا کہ ”حکومت فوری طور پر ہوش کے ناخن لے اور طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کرنا بند کیا جائے۔ والدین، سول سوسائٹی، ترقی پسند طلبہ تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس اہم ترین مسئلہ پر طلبہ کا ساتھ دیں اور نئی نسل کو مایوسی کی گہرائیوں میں دھنسنے پر مجبور کرنے والی حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی سرپرستی کریں، انکی اس جدوجہد کو منظم کرنے میں انکا ساتھ دیں۔ زندگی کے حصول کےلئے جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے والی یہ نئی نسل ہی مستقل میں اس سماج میں پنپنے والے دیگر تمام تر مسائل اور استحصال کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد کو استوار کریگی۔“