سوچ بچار

کیا تاریخ ختم ہو چکی ہے؟

لال خان

نسل انسان کی تاریخ مختلف سماجی نظاموں اور معروضی صورتحال کے مختلف کرداروں پر محیط ہے۔ ایسے تاریخ ساز واقعات جن میں جنگیں، انقلابات اور ہولناک ردِانقلابات فیصلہ کن ہوتے ہیں، ان تاریخی ادوار کے کردار کا تعین کرتے ہیں۔ 1917ء کا انقلابِ روس ایسا ہی واقعہ تھا جس نے کئی دہائیوں تک دنیا بھر میں انقلابات کو جنم دیا۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد نوآبادیاتی انقلابات پھٹ پڑے اور رومی سلطنت کے انہدام کے بعد کی سب سے بڑی تحریکیں اور ہل چل کا آغاز ہوا۔

فروری 1989ء میں جب آخری سوویت فوجی دریائے اَمو پار کرکے افغانستان سے واپس سوویت یونین میں داخل ہو رہا تھا تو امریکی سامراج کے سرکردہ دانشور اور نظریہ دان فرانسس فوکویاما نے ایک جشن بھرے انداز میں ’سوشلزم‘ کے انہدام کا تناظر پیش کیا۔ لیکن اس سے بہت پہلے 1917ء کے بالشویک انقلاب کے قائدین ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے سوویت یونین کی ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کی وجوہات خود لکھ کر دنیا کے سامنے واضح کر دی تھیں۔ لینن نے واضح کیا تھا کہ اگر سوشلسٹ انقلاب ایک ملک میں مقید رہا اور یورپ کے ترقی یافتہ ترین صنعت اور ٹیکنالوجی والے ممالک (جن میں سرفہرست جرمنی تھا) تک نہ پھیلا تو جلد یا بدیر اِس کی موت ناگزیر ہو جائے گی۔ اس طرح ٹراٹسکی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں سائنسی بنیادوں پر وہ وجوہات بیان کی تھیں جو انقلاب کی زوال پذیری کا باعث بن سکتی تھیں۔

دوسری طرف بالشویک انقلاب کے بعد کی سات دہائیوں تک مغربی سامراج کے دانشور کسی بھی بڑی شان و شوکت والی یونیورسٹی کی تحقیق یا پی ایچ ڈی تھیسس میں ایسی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکے۔ الٹا 1928ء کے بعد بالعموم اور دوسری عالمی جنگ کے بعد بالخصوص سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت جس رفتار سے ترقی کر رہی تھی اس کے پیش نظر امریکی سامراج کے سنجیدہ پالیسی سازوں کا خیال تھا صدی کے اواخر تک سوویت یونین‘ امریکہ کو پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ بہرحال افسر شاہانہ بد انتظامیوں کی وجہ سے 1970ء میں سوویت معیشت جمود کا شکار ہونے لگی۔

فوکویاما نے 1989ء کے بعد جو تھیسس دیا تھا اس کا عنوان ’’تاریخ کا اختتام‘‘ (End of History) رکھا۔ 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا۔ اس سے پیشتر 1978ء کے بعد چین میں سرمایہ داری کی دوبارہ استواری کے ردِ انقلابی عمل کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ واقعات ایک عہد کے اختتام اور ایک نئے رجعتی عہد کے آغاز کی نشاندہی کرتے تھے۔ اِس سلسلے میں 1980ء کی دہائی کے دو مزید واقعات اہم ہیں: 1984ء میں امریکہ میں ائیر ٹریفک کنٹرولرز کی ہڑتال کی ناکامی اور اسی دوران برطانیہ میں کانکنی کے محنت کشوں کی عظیم ہڑتال پر مارگریٹ تھیچر حکومت کی جارحیت، جس سے بعد ازاں برطانیہ میں پوری کانکنی کی صنعت ہی برباد ہوگئی۔ ان پے درپے ردِ انقلابی واقعات اور پوری دنیا میں نیو لبرل سرمایہ داری کی یلغار کے ماحول میں فوکو یاما کے’تاریخ کے خاتمے‘ کے نظرئیے کے آگے بائیں بازو کے بڑے بڑے دانشوروں اور نظریہ دان بھی ہتھیار ڈالتے چلے گئے۔ بہت سے ماسکو اور پیکنگ نواز ’کمیونسٹوں‘ نے اپنے قبلے ڈھیر ہوتے دیکھ کر سرمایہ داری کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔

’تاریخ کے اختتام‘کا عملی طور پر مطلب یہ تھا کہ سوشلزم اور مارکسزم ناکام ہو چکے ہیں اور اب سرمایہ داری ہی نسل انسان کا حتمی مقدر ہے۔ جارج بش سینئر نے ’نئے عالمی نظام‘ (New World Order) کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر حکومت میں ’پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ‘ کے زہریلے فریب سے وحشیانہ نجکاری شروع کی گئی۔ ہندوستان میں کانگریس حکومت نے ریاستی سرمایہ داری کو ترک کر کے منڈی کو سامراجی اجارہ داریوں کے لئے کھولنا شروع کر دیا اور پاکستان میں بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف کا آغاز کیا۔ پورے یورپ میں حکومتوں نے سوشل ڈیموکریسی کی ’فلاحی ریاست‘ کو خیر آباد کہہ کر تعلیم اور علاج جیسی بنیادی ضروریات کی نجکاری کا آغاز کیا۔ جدید شکلوں میں نہ صرف ہندو، عیسائی اوریہودی بنیاد پرستی بلکہ اسلامی بنیاد پرستی کا تیز ابھار بھی اسی صورتحال میں ہوا۔

آج سوویت یونین کے انہدام کو 27 سال گزر چکے ہیں۔ اس عرصے میں جس قدر بربادیاں دنیا بھر کے عام انسانوں نے دیکھی ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ جہاں صرف 42 افراد کے پاس دنیا کے تقریباً 5 ارب انسانوں سے زیادہ دولت ہے اور انسانوں کی وسیع اکثریت کی زندگیوں کے عذاب کہیں زیادہ شدت اختیار کرگئے ہیں۔ جنگ، خانہ جنگی، دہشت گردی اور معاشی جارحیت نے پورے کے پورے معاشرے تاراج کر دیئے ہیں اور کئی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر چکی ہیں۔ شام اور عراق سے لیکر لیبیا اور یمن تک انار کی اور خونریزی کا راج ہے۔ لیکن پھر بھی یہ رٹ لگائی جاتی ہے کہ سوشلزم ناکام ہو چکا ہے! مارکسزم متروک ہو چکا ہے!

سرمایہ داری کو ’ٹھیک‘ کرنے کے لئے اصلاحات کا راگ تو الاپا جاتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی اِس نظام پر بات کرنا ممنوع بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان میں لبرل اور سیکولر دانشوروں سے لیکر بنیاد پرستوں اور ملاؤں تک سب فوکو یاما کے چیلے بن چکے ہیں۔ ویسے اگر سوشلزم ابدی موت مر چکا ہے تو بار بار اِس کی موت کا اعلان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ سوویت یونین کے 27 سال بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پہلی تقریر میں سوشلزم کی بار بار مذمت کی ضرورت کیوں محسوس کر رہا تھا؟ آج بھی پاکستان کے مروجہ دانشور یہ کیوں لکھ رہے ہیں کہ بس اب تو چند روز کی بات ہے کہ سوشلزم اور مارکسزم کے نام لیوا ختم ہوجائینگے؟

سامراجی حکمرانوں اور مغربی یونیورسٹیوں کے جن سکالروں کی پیروی ہمارے مذہبی اور لبرل دانشور کرتے ہیں ان کا سوشلزم سے یہ خوف بے سبب نہیں ہے۔ مارکس کی زندگی میں صرف ایک پرولتاری انقلاب فتح یاب (پیر س کمیون) ہوا تھا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ محنت کشوں نے 70 دن تک اقتدارپر قبضہ کیا تھا۔ اس انقلاب کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ اس کے بعد بارہ سال مارکس نے سوشلزم اور کمیونزم کے نظریات اور لائحہ عمل کو مزید نکھارنے اور وسعت دینے میں گزار دئیے۔ سوویت یونین بھی 70 سال بعد ٹوٹ گیا۔ لیکن کیا مارکسزم کا نظریہ غلط ثابت ہوگیا ؟ کیا استحصال، طبقاتی تفریق اور کشمکش ہی ختم ہو چکی ہے؟ فوکو یاما کے پیروکار درحقیقت سرمایہ داری کی اپنی بربادی اور تاریخ متروکیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

معاشروں کو بدلنے والے انقلابات برپا کرنے کے لئے سوچ اور فکر کی بے باکی اور تاریخی وسعت درکار ہوتی ہے۔ تنگ نظر شعور، چھوٹی سوچ اور سطحی فکر صرف وقتی کیفیات اور ظاہریت تک محدود ہوتی ہے۔ اگر تاریخی ارتقا کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نسل انسان کی تاریخ میں دہائیاں بھی چند لمحات کی طرح ہوتی ہیں۔ انسانوں کی زندگیاں بھی بہت مختصر ہوتی ہیں۔ لیکن جب تک کسی معاشرے میں طبقات موجود رہیں گے ان کے درمیان کشمکش بھلا کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ طبقاتی جدوجہد بھلا کیسے مٹ سکتی ہے؟

لینن نے بالشویک انقلاب کے بعد اپنی تصنیف ’مارکسزم کے تین اجزائے ترکیبی‘ میں واضح کیا تھا کہ مارکسزم اس لئے اٹل ہے کیونکہ یہ سچ ہے اور اگر ہمیں آج بھی اس سے بہتر سائنسی نظریہ ملتا ہے تو ہمیں اسے خیر آباد کہنے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کریں گے۔ آج کی سب سے بڑی سچائی بھی یہی ہے۔ مارکسزم کا متبادل کوئی ایسا فلسفہ اور نظریہ نہیں آسکا جو سائنسی بنیادوں پر نہ صرف سماج کی تشریح اور وضاحت کر سکے بلکہ محرومی، جبر اور استحصال سے نجات کا راستہ اور منزل بھی واضح کرے۔

Lal Khan
Website | + posts

ڈاکٹر لال خان روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رُکن تھے۔ وہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے انٹرنیشنل سیکرٹری اور تقریباً چار دہائیوں تک بائیں بازو کی تحریک اور انقلابی سیاست سے وابستہ رہے۔