حارث قدیر
پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں توقع کے مطابق پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اب تحریک انصاف کو حکومت سازی اور 5 سال استحکام کیساتھ حکومت چلانے سے صرف تحریک انصاف خود ہی روک سکتی ہے۔ ماضی میں اس طرح کی روایات اس خطے میں رہی ہیں جب حکومت بنانے والی جماعت کی حکومت کو اسی جماعت سے ہی خطرات رہے ہوں۔
حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے مریم نواز کی شخصیت اور اسٹیبلشمنٹ مخالف و کشمیری قوم پرستانہ بیانیہ کی بدولت جلسے تو کامیاب کئے لیکن ’جدوجہد‘ میں ہی لکھے گئے ایک مضمون میں کئی گئی پیش گوئی کے مطابق مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت سے حکومت میں رہنے کے باوجود 6 نشستوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ہمیشہ ہی پاکستان میں حکمران جماعت کی حمایت یافتہ پارٹی کی ہی حکومت قائم ہوئی ہے، چاہے وہ پارٹی انتخابات سے چند ماہ قبل ہی کیوں نہ بنی ہو۔ تاہم تحریک انصاف جہاں انتخابات میں کامیاب ہو کر بظاہر حکومت بنانے باآسانی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے، صورتحال اتنی آسان بھی نہیں ہے۔
تحریک انصاف کے اندر وزارت عظمیٰ کے 4 سے زائد امیدواروں کے ساتھ ساتھ 3 بڑے اور مضبوط دھڑے بھی موجود ہیں۔ اس خطے کی سیاست کو عمومی طور پر 4 بڑے قبیلوں اور متعددچھوٹے قبیلوں کے مابین تقسیم کر کے ہی دیکھا اور ترتیب دیا جا تارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ قومی ریاست کی جدید خطوط پر ستواری میں ناکامی، تاریخی نااہلی اور تاخیرزدگی کی وجہ سے پاکستان جیسی سامراجی کردار کی حامل ریاستوں کے نو آبادیاتی خطوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی استواری کی کسی بھی کوشش کا اس سے اچھا نتیجہ نکل بھی نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی ادارے جیسے اختیارات کی حامل اس ’قانون سازاسمبلی‘ سمیت اس نو آبادیاتی ریاستی ڈھانچے کی بیوروکریسی اور عدلیہ تک میں غیر اعلانیہ طور پر قبیلوں کے تناسب کی بنیاد پر انتخاب، تعین اور تقرر کیا جاتاہے۔
2021ء کے عام انتخابات کے دوران ریاست کے حاوی دھڑوں نے بھرپور کوشش کی کہ بڑے قبیلوں کے بڑے نام (جنہیں ماضی میں دہائیوں تک ریاستی وفاداری میں پالا گیا تھا) انتخابات میں شکست سے دوچار ہوں یا کم از کم انہیں حکومت سازی کے عمل سے باہر رکھا جائے، یہ بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ کسی کم تعداد کے قبیلے کو بڑے عہدے پر بٹھایا جائے۔ تاہم اس منصوبے کو جس طرح اس خطے کی آئینی حیثیت کے خاتمے کیلئے اقدامات سے جوڑا جارہا ہے، ایسا شاید اس لئے نہیں ہو گا کیونکہ جو نام نہاد بڑے نام باہر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے انہیں بھی اس لولے لنگڑے اقتدار کیلئے کچھ بھی کرنے کو کہاجائے تو وہ انکار نہیں کرینگے۔ یہ امکان ضرور ہے کہ طاقتور حلقوں کو زیادہ مطیع، زیادہ فرمانبردار اور زیادہ کاروباری شراکت داری کی اہلیت رکھنے والے ’یس مین‘ کی تلاش ہے اور اس وجہ سے وہ پرانے تنخواہ داروں کی جگہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
53 رکنی ایوان کی حامل جس حکومت کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 28 ارب روپے ہے اس میں ایک نشست پر کامیابی اور وزارت عظمیٰ کی لابنگ کیلئے اگر ایک محتاط اندازے کے مطابق 7 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کئے جائیں تو یہ بات باآسانی معلوم ہو سکتی ہے کہ معاملہ صرف ایک نشست یا وزارت عظمیٰ کی کرسی تک محدود نہیں ہے، منصوبہ بندی اس سے کچھ زیادہ کی کی جارہی ہے۔
تحریک انصاف نے انتخابات کی مہم بھی ایک منفرد انداز میں چلائی، اس مہم کی سربراہی تحریک انصاف کے مقامی صدر نے نہیں کی بلکہ اس کی بجائے وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور اور ایک معروف کاروباری شخصیت تنویر الیاس نے چلائی، تاہم وہ ایک مخصوص علاقے میں ہی مہم چلاسکے۔ میرپور ڈویژن میں تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمود اور انکا گروپ حال ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سابق سپیکر انوارالحق اور ہمیشہ سے آزادحیثیت میں کامیاب ہو کر حکومت کا حصہ بننے والے چوہدری علی شان سونی اور ان کے ساتھیوں کو انتخابات ہرانے کی کوشش میں مصروف رہا۔ اسی طرح یہ احباب بیرسٹر سلطان محمود کی شکست کی کوشش میں رہے تاکہ وزارت عظمیٰ کا ایک امیدوار کم ہو سکے۔ انتخابی مہم کے ڈپٹی انچارج تنویر الیاس نے جہاں اپنی کامیابی کیلئے جماعت اسلامی کے سابق امیر سمیت ایک سابق وزیراعظم تک کو خریدنے سے گریز نہیں کیا، وہاں وہ ایک حلقہ انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی بجائے سابق آئی ایس آئی چیف جنرلن (ر) حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل کی پارٹی ’تحریک جوانان‘ کے امیدوار کی کامیابی کیلئے نہ صرف کوششیں کرتے رہے بلکہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کی، کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی یہ پارٹی واحد حلقہ انتخاب سے تیسری پوزیشن ہی حاصل کر پائی۔
انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد ایک منظم انداز میں یہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے کہ وزارت عظمیٰ کسی کشمیری بولنے والے کے حوالے کی جائے تاکہ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں بسنے والے کشمیریوں کو ایک اچھا پیغام جا سکے۔ اس منظم مہم کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ مظفرآباد شہر کی نشست سے منتخب ہونے والے خواجہ فاروق احمد اپنی لابنگ مزید بہتر کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، تنویر الیاس نے اربوں روپے وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے خرچ کئے ہیں، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ایک بڑے سیاسی گروپ کے ہمراہ نصف درجن سے زائد جماعتیں صرف وزارت عظمیٰ کیلئے تبدیل کر چکے ہیں، انوارالحق اپنے بھائی کی طاقتور ادارے کے طاقتور مقام پر براجمانی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں وزارت عظمیٰ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
مندرجہ بالا صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک تو کوئی ایک ہی پہنچ پائے گا لیکن پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسکی بقا تحریک انصاف کی پاکستان میں دوبارہ کامیابی میں ہی ممکن ہو پائے گی۔ اگر تحریک انصاف پاکستان میں دوبارہ حکومت نہ بنا سکی تو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں ’ان ہاؤس تبدیلیوں‘ کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گا۔ یہی وہ واحد صورت ہے جس میں وزارت عظمیٰ کے سارے امیدوار اپنے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔