خبریں/تبصرے

جموں کشمیر: ممکنہ وزیر اعظم ’سینٹورس‘ میں اپنے ملازمین کو کم از کم تنخواہ بھی نہیں دیتے

قارئین! مندرجہ ذیل رپورٹ ہم نے اس سال 8 مارچ کو پوسٹ کی تھی۔ اس کا عنوان تھا ’سینٹورس ملازمین سراپا احتجاج: لیبر قوانین پر عملدرآمد سے گریزاں تنویر الیاس اقتدار کی دوڑ میں شریک‘۔ ایک طرف ہماری یہ خبر بالکل درست ثابت ہوئی۔ تنویر الیاس حالیہ جموں کشمیر انتخابات میں اہم سیاسی مہرہ بن کر سامنے آئے۔ ان کے ناقدین کی جانب سے انہیں پی ٹی آئی کا ’اے ٹی ایم‘ کہہ کر بھی پکارا گیا۔ دوسری جانب، یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ایک ایسا سرمایہ دار اقتدار کی دوڑ میں، سرمائے کے بل پوتے پر بظاہر سب سے آگے ہے اور مین سٹریم میڈیا یا مین سٹریم سیاست میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ اس سرمایہ دار سیاستدان کی اٹھان میں قدم قدم پر مزدور کا استحصال شامل ہے۔ قارئین جدوجہد کی دلچسپی اورمعلومات کے لئے یہ رپورٹ دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔

حارث قدیر

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں حکمران طبقات کو خدمات فراہم کرنے والے سب سے بڑے شاپنگ مال ’سینٹورس‘ میں سرکاری سطح پر متعین کردہ محنت کشوں کی کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہ کئے جانے اور 3 سال سے اجرتوں میں معمولی اضافہ بھی نہ کرنے کے خلاف محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔ ’سینٹورس‘ مال میں کام کرنے والے محنت کشوں نے جمعہ کے روز احتجاجی دھرنا دیا اور اجرتوں میں اضافے، سالانہ بونس کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔

احتجاج کرنے والے ملازمین کی تعداد کم ہونے سے متعلق ایک سوال پر ایک محنت کش کا کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے محنت کشوں کو نوکری سے نکالے جانے کا خوف ہے۔ ’سینٹورس‘ میں 200 سے زائد ملازمین ایسے ہیں جن کی تنخواہیں 14000 سے 15 ہزار ماہانہ ہیں۔ 6 سال قبل 2015ء میں احتجاج کے بعد 400 روپے کی بجائے 500 روپے دیہاڑی مقرر کی گئی تھی لیکن احتجاج میں متحرک کردار ادا کرنے والے محنت کشوں کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اس لئے اب محنت کش احتجاج سے خوفزدہ ہیں۔

ایک محنت کش نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ’جب ملازمت دی گئی تھی تو سالانہ اجرتوں میں اضافے، رہائش، کھانے اور میڈیکل کی سہولیات کاذکر کیا گیا تھا، بعد ازاں ایگریمنٹ میں یہ سہولیات ختم کر دی گئیں۔ سکیورٹی سٹاف کو کھانا اور رہائش دی جاتی ہے۔ 25 ہزار سے کم تنخواہ والے ملازمین کو ایک وقت کا کھانا بھی دیا جاتا ہے۔ اولڈ ایج بینیفٹ میں بھی محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ہے۔‘

ایک اور محنت کش کا کہنا تھا کہ ’چھوٹے ملازمین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، شاپنگ مال کے بیسمنٹ میں رہائش فراہم کی گئی ہے۔ یہ بڑے بڑے ہال ہیں جن میں 40 سے زائد ملازمین فی ہال رہائش پذیر ہیں اور ہر ہال کے ساتھ ایک واش روم ہے، ملازمین کو واش روم کے استعمال کیلئے گھنٹوں لائنوں میں لگنا پڑتا ہے۔ تمام شعبہ جات کے اہم عہدوں پر ریٹائرڈ فوجی افسران تعینات کئے گئے ہیں۔ غریب ملازمین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تقریباً 1500 کے قریب ملازمین میں سے اکثریت چھوٹے ملازمین کی ہے جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔‘

واضح رہے کہ ’سینٹورس مال‘ معاون خصوصی برائے وزیراعلیٰ پنجاب سردار تنویر الیاس کی ملکیت ہے۔ جن سے متعلق کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے پنجاب کی نگراں حکومت میں وزارت کے حصول سمیت موجودہ پنجاب حکومت میں ایڈجسٹمنٹ کیلئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ موجودہ وقت وہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی سیاست میں شامل ہونے کیلئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اور حال ہی میں کروڑوں روپے کے اخراجات کرکے انہوں نے راولاکوٹ میں ’پاک افواج سے یکجہتی‘ کیلئے ایک ریلی اور جلسہ منعقد کیا ہے۔

اقتدار کے حصول کیلئے بلند و بانگ دعوے کرنے اور بظاہر عوامی خدمت کیلئے بے چین نظر آنیو الے سردارتنویر الیاس اور ان کے خاندان کی تمام تر دولت اس خطے کے محنت کشوں کے شدید ترین استحصال کے مرہون منت ہے۔ ہزاروں محنت کشوں کا انتہائی قلیل اجرت پر سعودی عرب میں استحصال کرنے کے علاوہ اندرون ملک مختلف منصوبہ جات پر ہزاروں کی تعداد میں محنت کشوں کا استحصال اس بڑی دولت کی وجہ نظر آتا ہے۔

اسلام آباد میں کام کرنے والے صحافی کاشف میر کے مطابق ’ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 سے 12 ہزار محنت کش ’سردار گروپ آف کمپنیز‘، ’پاک گلف کنسٹرکشن‘، ’تاج ریذیڈینشیا‘، ’پٹرول پمپس‘، ’ایڈورٹائزنگ ایجنسی‘، ’ریڈیو سروسز‘سمیت دیگر منصوبہ جات پر کام کر رہے ہیں، سعودی عرب میں ’التمیمی گروپ آف کمپنیز‘ کے ساتھ بھی تقریباً 20 سے 25 ہزار کے درمیان محنت کش منسلک ہیں۔ ان تمام کاروبار وں کی ملکیت سردار تنویر الیاس اور ان کے والد سردار الیاس کے پاس ہے یا ملکیت کا ایک بڑا حصہ انکے پاس ہے۔‘

ٹریڈ یونین رہنما ڈاکٹر چنگیزملک کہتے ہیں کہ ’بہت تیزی سے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والے نودولتی سرمایہ دارجتنی تیزی سے دولت کے انبار اکٹھے کرتے ہیں اتنا ہی شدید محنت کشوں کا استحصال بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی سمگلنگ، اجناس کی سمگلنگ اور قیمتی اراضی پر قبضوں کے علاوہ بے شمار دیگر آمدن کے غیر قانونی ذرائع بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس دولت کو بچانے، ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے اور غیر قانونی ذرائع آمدن کے تحفظ کیلئے پھر ریاست میں مداخلت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ ریاستی اداروں، حکومتی شخصیات اور بالخصوص فوجی اشرافیہ و ججوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘

ڈاکٹر چنگیز ملک کا کہنا تھا کہ ’ان سرمایہ داروں سے جو یہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انکے پاس سب کچھ موجود ہے، اس لئے وہ انسانیت کی خدمت کیلئے سیاست میں آ رہے ہیں، یا پھر خیرات کا سہارا لیکر اپنی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ سب طریقے اس دولت میں مزید اضافے، کالے دھن کو محفوظ رکھنے اور کسی نوعیت کے ممکنہ احتسابی عمل سے بچنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔سیاست میں شمولیت، بڑی پارٹیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے حکومتوں سے مراعات اور مفادات حاصل کئے جاتے ہیں، قیمتی اراضی، ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈیز، بڑے ٹھیکے اور دیگر مفادات حاصل کئے جاتے ہیں اور دولت کے انبار اکٹھے کئے جاتے ہیں۔‘

پیپلزپارٹی کے رہنما عاصم اختر کا کہنا ہے کہ ’سردار تنویر الیاس، ان کے والد سردار الیاس اور ان کے دیگر کاروباری شراکت دار وں کی دولت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے محنت کشوں کی ہڈیوں سے عرق تک نچوڑ کر جمع کی گئی ہے۔ سعودی عرب میں سب سے کم اجرتوں پر جو محنت کش کشمیر سے لے جائے جاتے ہیں، وہ ’التمیمی گروپ آف کمپنیز‘ میں جاتے ہیں، انتہائی غیر انسانی ماحول میں وہ کیمپوں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں، جراثیم زدہ اور ناقص خوراک دی جاتی ہے۔ جس کیڈر کے کام کیلئے سعودی عرب میں دیگر کمپنیاں 2500 سے 3 ہزار ریال اجرت دیتی ہیں اس کیڈر کے کام کیلئے ’التمیمی گروپ آف کمپنیز‘ میں 1000 یا 1200 ریال ماہانہ اجرت دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ’مرمتی کام‘ کے نام پر ہزاروں محنت کشوں کو سعودی عرب بلایا جاتا ہے۔ انہیں 7 سو سے 1 ہزار ریال اجرت دی جاتی ہے اور دیگر کمپنیوں کو کنٹریکٹ پر بطور لیبر فراہم کیا جاتا ہے، ان کمپنیوں سے سعودی عرب کے لیبر قوانین کے مطابق رقم کمپنی مالکان وصول کرتے ہیں۔ اس طرح دہرے استحصال کا شکار محنت کش کئی کئی سال تک پاسپورٹ کمپنی کے پاس ضبط ہونے کی وجہ سے انتہائی ارزاں نرخوں قوت محنت فروخت کرنے پرمجبورہوتے ہیں۔‘

عاصم اختر کہتے ہیں کہ ’اس خطے کے محنت کشوں کا اتنا بھیانک استحصال کرنے والوں سے یہاں تعمیر و ترقی اور عوامی مسائل حل کئے جانے کی امید لگانا دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ تمام تر دولت جو اس اقتدار کیلئے خرچ کی جا رہی ہے اس سے کئی گنا زیادہ اس اقتدار کے کھیل سے جمع کی جائیگی۔ اس خطے کے وسائل کو لوٹا جائے گا، قیمتی اراضی حاصل کی جائیگی، اس خطے کے حسن کو بیچا جائے گا اور سب سے بڑھ کر اس خطے کے ماحول کو برباد کر کے دولت کے انبار لگائے جائیں گے۔‘

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔