کوالالمپور (نامہ نگار) ملائشیا میں پاکستانی تارکین وطن جو پہلے سے ہی شدید مشکلات کا شکار تھے، کرونا کی وبا نے تو جیسے ان سب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ امیگریشن کے مسائل، کاغذات مکمل نہ ہونے پر پکڑ دھکڑ، حکام کاڈی پورٹ کردینا…یہ سب معمول کی باتیں ہیں۔
زندگی اور موت کی کشمکش کے درمیان گزری جیل کی اذیت ناک زندگی۔ بچوں بوڑھوں حتیٰ کہ حاملہ خواتین کا جیل میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بغیر ایک عرصہ تک قید رہنا۔ علاج کی عدم فراہمی کے باعث پچاس سے زیادہ تارکین وطن کا زندگی کی بازی ہار جانا۔ عزت نفس کا بری طرح کچل دیا جانا۔ نوکری سے نکالے جانے اور مایوسانہ حالات سے تنگ آکے خود کشی کے افسوسناک واقعات۔ یہ سب یہاں ہو چکا ہے۔
ان تمام تکلیف دہ اور دردناک حالات کا تو سامنا تھا ہی مگر ملائیشیا میں لاک ڈاون، کرفیو اور دس کلو میٹر سے آگے جانے پر پابندی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ لوگوں کو جان کے لالے پڑنے لگے۔ بچے دودھ کے لئے بلکنے لگے۔ بیمار علاج کے لئے ترسنے لگے۔ مکان کے کرائے بل وغیرہ روزگار چھن جانے کی وجہ سے سر پر ہتھوڑے بن کر برسنے لگے۔
یہ جان لیوا صورتحال تارکین وطن کے لئے کسی جہنم میں زندگی گزارنے جیسی تھی۔ ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ لوگ بلبلا اٹھے۔ ایسے میں ہنگامی بنیادوں پر مدد کی ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں چند انسانیت کا درد رکھنے والوں نے انسانی ہمدردی کے تحت مدد کیلئے قدم بڑھایا۔
اس سلسلہ میں، نوید، آشر، عفاف، حقوق خلق موومنٹ کے رہنما فاروق طارق کے علاوہ ملائشیا کی سوشلسٹ پارٹی کے سنتیاگو چارلز اور مکروپیا ساما سندرم اہم ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی اقلیتی برادری، جن میں ہندو سکھ مسیحی اور احمدی شامل ہیں، گزشتہ چند برسوں سے مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سے انسان دوست ایسے ہیں جو نام ظاہر کئے بغیر اس انسانی المیہ میں خدمت انسانی میں پیش پیش ہیں۔
آشر نے رینٹ کے مسائل کی طرف خاص توجہ دی اور بہت سے لوگوں کے رینٹ کے مسائل حل کئے۔ عفاف اظہر نے اس مدد کو ایک تحریک کی شکل دی اور سوشل میڈیا کو انسانی مدد کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ مخیر حضرات سے مل کے بہت سی نقد رقم ملائیشیا ارسال کی۔ عملی مدد کرنے کے ساتھ ڈونر اور ضرورت مندوں کے درمیان رابطے کا کردار نبھایا۔
نوید نے ملائیشیا میں معیاری راشن کی تقسیم کو یقینی بنایا، راشن میں آٹا چاول نمک مرچ چینی کنڈیس ملک پتی دالیں بسکٹ صابن ادویات فیس ماسک آلو پیاز میگی کوکنگ آئل لہسن پیکج میں شامل کیا گیا۔ یہ راشن تقریبا ایک سو ستائس سے زائد تارکین وطن میں تقسیم کیا گیا۔ خیال رہے کہ یہ انسانی خدمت مذہب فرقے نسل سے بالاتر ہوکر کی گئی جسے بے حد سراہا گیا۔ تارکین وطن کی جانب سے شکریہ اور دعاؤں کے پیغامات وصول ہوئے۔
دوسری طرف افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ راشن تقسیم کرنے والی ٹیم پر بعض حلقوں کی جانب سے دباو ڈالا گیا کہ آپ راشن کی تقسیم فوری طور پر روک دیں، ’ہم غیر مسلم سے راشن نہیں لے سکتے‘۔ اس دباو کے باوجود تارکین وطن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے جو راشن ہمیں دیا جاتا تھا وہ ناکافی تھا اور اس کی کوالٹی بھی تسلی بخش نہ تھی اس لئے ہم اپنے اور بچوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
اس تمام افسوسناک صورتحال کے باوجود انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ان انسان دوستوں کی خدمات جاری ہیں ان کارکنوں کہنا ہے کہ ہم انسانی خدمت ان سب رکاوٹوں کے باوجود جاری رکھیں گے او رکوئی ہمیں اس سے نہیں روک سکتا۔
حقوق خلق موومنٹ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم ان تمام مخیر حضرات کے شکر گزار ہیں جو اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ ہیں، ان کے بھرپور تعاون کے بغیر اتنی بڑی اوربے لوث انسانی خدمت ممکن نہ تھی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ جب تک کرفیو اور لاک ڈاؤن ہے راشن، رینٹ اور میڈیکل کے مسائل ساتھ ساتھ رہیں گے اس لئے خدمت خلق موومنٹ نے انسانی ہمدردی کے تحت مزید مالی مدد کی اپیل کی ہے۔