پاکستان

آصف زرداری کا ادھورا انٹرویو اور آزادی اظہار کا سوال

فاروق سلہریا

سویڈن کی معروف جامعہ ’اُپسالا یونیورسٹی‘ (Uppsala University) میں ایک نام نہاد اکیڈیمک کانفرنس تھی جس کے سٹار گیسٹ معروف فرانسیسی محقق کرسٹو جیفرلو (Christophe Jaffrelot) اور برطانوی اکیڈیمک ایان ٹالبوٹ (Ian Talbot) تھے۔ ایک سیشن کے دوران میں نے ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ میرے مقالے، جس میں دونوں ملکوں میں کمرشل ٹی وی چینلوں کے ہاتھوں میڈیا مارکیٹ کی سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور صحافت کی تباہی کے حوالے سے میں نے اپنی تحقیق پیش کی، کے بعد مذکورہ بالا دونوں یورپی محقق، جو جنوبی ایشیا کے ماہر مانے جاتے ہیں مگر میڈیا ان کی تحقیق کا موضوع کبھی نہیں رہا، پدرانہ انداز میں میری تصحیح فرمانے لگے۔

اکثر یورپی دانشور تیسری دنیا کو اپنی نظریاتی کالونی سمجھتے ہیں۔ اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ ایسے حضرات کی متعلقہ فیلڈ میں کوئی مہارت ہے یا نہیں‘ بس اپنی اکیڈیمک کالونی کے کسی بھی موضوع پر وہ ماہرانہ رائے دے سکتے ہیں۔

دونوں حضرات نے مجھے یاد دلایا کہ موجودہ دور کے ٹی وی چینلوں پر دستیاب آزادی کا موازنہ دور درشن او ر پی ٹی وی کے اجارہ دارانہ دور سے نہیں کیا جا سکتا۔ نجی اور کمرشل چینلوں کے آنے سے پہلے دور درشن اور پی ٹی وی پر سخت سنسر شپ ہوتی تھی‘ صرف حکومتی موقف دکھایا جاتا تھا اور اب حزب اختلاف بھی دن بھر ٹی وی پر دکھائی دیتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

پریس کی آزادی کے حوالے سے ایسا موقف اکیڈیمک ادب اور یونیورسٹی کے نصابوں میں عام طور پر دہرایا جاتا ہے۔ آزادی صحافت کے ”عقیدے“ پر ایمان رکھنے والے لبرل میڈیا سکالر، جنہوں نے آزادی صحافت کی تعریف مین سٹریم امریکی میڈیا سکالروں سے سیکھی ہوتی ہے، کے عقیدے کا جزو لاینفک ہے کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے چینل آزاد نہیں ہوتے جبکہ نجی اور کمرشل چینل آزاد ہوتے ہیں۔

تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے میڈیا سکالروں کا موقف یہ رہا ہے کہ محض میڈ یا کی ریاستی ملکیت سے فرق نہیں پڑتا۔ یہ درست ہے کہ تیسری دنیا میں عموماً ریاستی سرپرستی میں چلنے والے چینل بر سر اقتدار حکومت کے ماؤتھ پیس یعنی ترجمان بن جاتے تھے لیکن دنیا بھر میں ایسا نہیں تھا۔ اس کی ایک مثال تو دنیا بھر میں آزادی صحافت کی علامت سمجھا جانے والا بی بی سی تھا۔ گو بی بی سی پر تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے میڈیا سکالروں کی اپنی تنقید موجود ہے مگر کو ئی اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ بی بی سی اور پی ٹی وی میں زبردست فرق تھا اور ہے۔

ترقی پسند میڈیا سکالروں کا موقف یہ رہا ہے کہ میڈیا اور ٹی وی چینل ریاستی ملکیت میں چلیں یا نجی، میڈیاکو میسر آزادی کا تعلق اس بات سے ہے کہ جس معاشرے اور ریاست میں وہ میڈیا کام کر رہا ہے وہاں کس قدر جمہوری آزادیاں میسر ہیں۔ اپنے صحافتی تجربے اور تحقیق کی بنیاد پر میں نے جنوب ایشیا پر مذکورہ بالا یورپی ماہرین کی خدمت میں عرض کیا کہ جب مواصلاتی لہروں پر پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی تب سنسر شپ سے کام لیا جاتا تھا۔ اب جبکہ نجی اور کمرشل چینل آ گئے ہیں تو سنسر شپ کی بجائے ’مینی پولیشن‘ یعنی ساز باز اور جوڑ توڑ سے کام لیا جاتا ہے۔

لیکن اس واقعے سے ہٹ کے بات کریں تو پاکستانی دانشور اور عام لوگ بھی ایک وقت تک اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ نجی چینلوں کے آنے سے میڈیا آزاد ہو گیا ہے۔ معروف لبرل صحافی خالد احمد (جو ڈیلی ٹائمز اور فرنٹیر پوسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں) نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا تھا کہ پاکستانی ریاست کے تین ستون (عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ) نہیں بلکہ چھ ستون ہیں۔ جن تین اضافی ستونوں کا ذکر کیا گیا ان میں مولوی حضرات اور میڈیا کو بھی شامل کیا گیا۔

عام ناظرین‘ بالخصوص جنہوں نے ضیا آمریت کے دور میں پی ٹی وی کا خبرنامہ دیکھا تھا ان کے لئے اے آر وائی اور جیو تازہ ہو کا جھونکا تھے۔ کہاں وہ دن کہ شاہنواز بھٹو کی موت کی خبر دیتے وقت بھی بھٹو کا نام نہیں لیا گیا۔ کہاں مشرف دور کے چینل کہ جب وکلا تحریک چلی تو طلعت حسین اور حامد میر جیسے اینکر پرسن بھی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے۔

ہوا یوں کہ ہر دفعہ ایسا ہوتا ہے: جب کوئی نئی میڈیا ٹیکنالوجی آتی ہے تو نیا میڈیم کسی حد تک (بعض اوقات کافی حد تک) حکمران طبقے کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے۔ چھاپہ خانہ (پرنٹنگ پریس)، فلم، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر اور اب سوشل میڈیا‘ سب کی یہی کہانی ہے۔ لیکن اب کم از کم پاکستان میں یہ حالت ہو چکی ہے کہ انسان فیس بُک پر پوسٹ کرتے ہوئے بھی سو بار سوچتا ہے۔ پہلے تو فقط سرکاری اداروں سے ڈرنا پڑتا تھا‘ اب توسوشل میڈیا ٹرولز کو بھی ذہن میں رکھنا پڑتا ہے۔

تو جناب مشرف دور کا کمرشل ٹی وی ابتدا میں بلا شبہ کسی حد تک آزاد تھا لیکن پھر اُسے قابو کر لیا گیا۔ مگر یاد رہے کہ جب وہ ”آزاد“ تھا تب بھی کچھ موضوعات شجرِ ممنوعہ تھے۔ ٹی وی اسکرین پر چھائے ہوئے سارے اینکر پرسن دائیں بازو کے کٹر نظریات رکھتے تھے۔ بلوچستان، کشمیر، بھارت، امریکہ، معیشت، مزدور طبقے، سوشلزم، چین، طالبان، گیارہ ستمبر، سازشی نظریات وغیرہ کے حوالے سے سب ایک تھے۔ ہاں یہ ضرور تھا کہ کچھ حکمران طبقے کے ایک حصے کے ترجمان بن جاتے کچھ دوسرے دھڑے کے۔ بد عنوانی پر بہت شور ہونے لگا مگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مزدور دشمنی، ماحولیات دشمنی اور اندھی منافع خوری پر کبھی کوئی خبر نہیں آئی کیونکہ یہ چینل کاروبار کرتے ہیں صحافت نہیں۔

آپ بطور ناظر یہ سمجھتے ہیں کہ جیو یا ہم ٹی وی وغیرہ پر دکھایا جانے والا ٹاک شو یا ڈرامہ سیریل آپ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ لیکن آپ تو بطور آڈینس (Audience) وہ پراڈکٹ ہیں جسے یہ چینل آگے اشتہار دینے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو بیچتے ہیں۔ ’جیو‘ یا ’ہم‘ کے پاس جتنے زیادہ ناظرین ہوں گے اتنے زیادہ اشتہار ملیں گے۔ ٹاک شو اور ڈرامہ سیریل ناظرین کی تعداد میں اضافے کا بہانہ ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ٹاک شو اور ڈرامہ سیریل میں یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات‘ کوئی ایسا موضوع نہ چھیڑا جائے جس سے ملٹی نیشنل یا اشتہار دینے والی کمپنی، جو بحریہ ٹاؤن بھی ہو سکتی ہے، ناراض ہو۔ یہ ہے جدید سنسر شپ جو ’Manipulation‘ کی صورت میں کام کرتی ہے۔

دوم یہ کہ ہمارے ہاں جمہوری آزادیاں ویسے ہی مفقود ہیں۔ کچھ موضوعات اور کچھ ادارے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یکم جولائی کو کیا ہوا۔

یکم جولائی کو جیو پر حامد میر کے معروف ٹاک شو”کیپیٹل ٹاک“ میں سابق صدر آصف زرداری کے ساتھ انٹرویو نشر کیا جانا تھا۔ انٹرویو ابھی چار منٹ ہی چلا تھا کہ نشر ہونا بند ہو گیا اور جیو نے اعلان کیا کہ یہ انٹرویو مزید نشر نہیں ہو سکتا۔ حامد میر نے اس حوالے سے ٹویٹ جاری کر دیا جو سوشل میڈیا پر تیزی سے گردش کرنے لگا۔

اس واقعے کے بعد حسبِ توقع دو گروہ سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو اسے سنسر شپ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے حمایتی ہیں جن کا موقف ہے کہ ایک ایسے شخص کو بات کرنے کا خصوصی موقع دینا جو ملک میں بد عنوانی کی علامت ہو‘ صحافت نہیں ہے۔ حامد میرکے پروگرام کو بند کرنے کے حق میں یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ آصف زرداری کو اسمبلی سیشن میں شمولیت کے لئے رہا کیا گیا تھا نہ کہ ٹی وی انٹرویو دینے کے لئے۔

مختصراً پی ٹی آئی کے حامی گروہ کے حوالے سے چند باتیں سامنے لانا ضروری ہیں۔ آصف زرداری کے لئے جو دلیل دی جا رہی ہے اسے اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے پر حامد میر کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ جنرل مشرف کے انٹرویو کئی دفعہ چل چکے ہیں۔ طالبان کے نمائندے میڈیا کو انٹرویو دیتے آئے ہیں (طالبان کے بے ضابطہ نمائندے تو دن بھر سکرین پر دکھائی دیتے ہیں)۔ دنیا بھر میں متنازعہ شخصیات کو میڈیا میں جگہ ملتی ہے۔ ان پر فلمیں بنتی ہیں۔ دستاویزی پروگرام تیار کیے جاتے ہیں۔ اس انٹرویو کو سنسر کرنے والوں کا موقف نہ تو پاکستانی میڈیا کے حوالے سے درست ہے نہ عالمی میڈیا کے حوالے سے۔

اس سارے واقعے نے البتہ ایک مرتبہ پھر ملک میں آزادی صحافت کی بحث کو چھیڑا ہے تو ضروری ہے کہ مختصراً اس بات کو سمجھا جائے کہ آزادی صحافت سے مراد کیا ہے۔

پہلی بات: آزادی اظہار کی تعریف انسان انفرادی سطح پر اپنے نظریات کے مطابق طے کرتے ہیں جبکہ معاشرے اور ریاست کی سطح پر اس کا تعین اس بات سے ہو گا کہ وہاں کس قدر جمہوری آزادیاں میسر ہیں۔ سعودی عرب میں جتنی جمہوری آزادیاں ہیں‘ اتنا ہی وہاں کا میڈیا آزاد ہے۔ ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔

امریکی صحافی: ہمارے ملک میں مکمل فریڈم آف پریس ہے۔ ہم امریکی صدر پر جتنی تنقید کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

سعودی صحافی: ہمارے ہاں بھی مکمل فریڈم آف پریس ہے۔ ہم بھی امریکی صدر پر جتنی تنقید کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

دوسری بات: آزادی سے یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ آپ دوسرے شخص کی نجی زندگی میں مداخلت کریں۔ اس کے خلاف تشدد پر اکسائیں یا اس کے خلاف جھوٹ بولیں۔

سوم یہ کہ آزادی اظہار کی بہترین تعریف جرمن مارکسی رہنما روزا لکسمبرگ نے مقرر کی تھی اور اُن کے لازوال الفاظ ہی ’روزنامہ جدوجہد‘ کا بنیادی نکتہ بھی ہیں: ”آزادی اظہار وہی ہے جو مختلف سوچ رکھنے والوں کو حاصل ہو۔“

ناقد کہہ سکتا ہے کہ اس معیار کے مطابق تو آصف زرداری کی زبان بندی حکمران طبقے کے دھڑوں کی آپسی لڑائی ہے۔ یہ تنقید ایسی غیر ضروری نہیں ہو گی لیکن ایک ملک جہاں جمہوری آزادیاں مسلسل سکڑ رہی ہوں، جہاں قومی سوال اپنی پیچیدگیوں کے ساتھ موجود ہو‘ وہاں مذکورہ بالاتنقید حقائق سے آنکھیں چرانے اور کیپیٹل ٹاک کو آف ائیر بھیجنے کی حمایت کے مترادف ہو گی۔

چنانچہ آصف زرداری یا نواز شریف وغیرہ کی زبان بندی چاہے حکمران طبقے کی آپسی لڑائی ہے‘ اس لڑائی میں ہم ایک اصولی موقف اختیار کر سکتے ہیں۔ اصولی موقف یہ ہے کہ ہر کسی کو ہر بات کہنے کی اجازت ہے بشرطیکہ وہ بات تشدد پر نہ اکساتی ہو (یعنی ہیٹ سپیچ نہ ہو)، کسی کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کرتی ہو۔ ہم جن سے نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں ہم انہیں دلیل اور تحقیق سے نظریاتی شکست دینے کے قائل ہیں نہ کہ سنسر شپ کے ذریعے۔

آخری مگر اہم ترین بات: آزادی اظہار کی بحث کو طبقاتی حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ داری نظام میں آج یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ پاکستان کے مزدور بھی اپنا کوئی چینل شروع کر سکیں۔ کیا یہ معاشی سنسرشپ آزادی اظہار پر حملہ نہیں ہے؟ پاکستان تو کیا یورپ میں بھی، جہاں مزدور تحریک مالی لحاظ سے کہیں بہتر ہے، ٹریڈ یونین کے پاس کوئی ٹی وی چینل نہیں ہے۔ یہی سرمائے کی سنسرشپ ہے جسے توڑنے کے لئے سرمائے کے تسلط کو توڑنا ضروری ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔