خبریں/تبصرے

ڈس انفو لیب: کشمیر عالمی لابنگ کرنیوالے چند خاندانوں کیلئے پیسہ بنانے کی مشین ہے

حارث قدیر

متنازعہ ریاست جموں کشمیر کے لئے عالمی سطح پر ہونے والی لابنگ اور مہم کے دوران فیک نیوز اور پراکسی تنظیموں کے استعمال سے متعلق گزشتہ 8 ماہ کے دوران دوسری تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔

پہلی رپورٹ ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نامی ایک تنظیم کی ویب سائٹ (disinfo.eu) پر دسمبر2020ء میں شائع ہوئی تھی، 98 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بھارتی مفادات کو اجاگر کرنے کیلئے لابنگ اور جعلی خبریں پھیلانے والے نیٹ ورک کو منظر عام پر لایا گیا تھا۔

دوسری رپورٹ ’ڈس انفو لیب‘ نامی تنظیم کی ویب سائٹ (thedisinfolab.org) پر شائع کی گئی ہے۔ اس ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ براعظم ایشیا کی جعلی خبروں کی نشاندہی کرنے والی پہلی تنظیم ہے۔ اس تنظیم کی جانب سے اگست 2021ء میں جاری کی گئی 108 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں پاکستانی ریاست اور خفیہ اداروں کی جانب سے عالمی سطح پر جموں کشمیر کے مسئلے پر لابنگ کرنے والے خاندانوں اور تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مبینہ جعلی خبریں پھیلائے جانے کے عمل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ویب سائٹس گزشتہ 2 سالوں کے دوران ہی بنائی گئی ہیں اور جموں کشمیر سے متعلق تحقیقاتی رپورٹوں کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام دونوں ویب سائٹس پر نظر نہیں آ رہا ہے۔

’ڈس انفو لیب‘ کی جانب سے جاری کی گئی حالیہ رپورٹ میں مختلف حوالہ جات دیکر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ”کشمیر کی کہانی چند باہم منسلک کہانیوں کی داستان ہے، کشمیر کا تنازعہ خاندانوں کے ایک گروپ کے ذریعے چلنے والا خاندانی کاروبار بن چکا ہے اور خاندانی کاروبار کی طرح ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کیا جاتا ہے۔“

رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ ”جموں کشمیر تنازعہ کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیاہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے خاندانوں کے گروہ سے لیکر گورے سیاستدانوں تک کی ایک تعدادپیدا کی ہے، کشمیر کی داستان عالمی سطح پر سپانسر شدہ داستان ہے، جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ہر تشویش آخر میں ایک گٹھ جوڑ سے منسلک ہے، جسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے تعمیر کر رکھا ہے۔“

رپورٹ کے مطابق ”کشمیریوں کو چھوڑ کر کشمیر ہر ایک کا مسئلہ بن گیا ہے، کوئی ایسا کشمیری نہیں جس کا کشمیر سے کوئی مناسب تعلق ہو اور وہ کشمیر کی بحث میں شامل ہو، اگر کوئی ہو بھی تو وہ سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔“ رپورٹ کے نتائج میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”کشمیر کہانی کیلئے سعودی عرب سے مرکز تبدیل ہو کر ترکی منتقل ہو گیا ہے۔ 2016ء میں ہونے والی اس تبدیلی کے جنوبی ایشیا میں تنازعات سے متعلق نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تاہم کہانی کا اصل کلیدی کھلاڑیوں سے ہی ملتا ہے، جماعت اسلامی کے کھلاڑیوں نے تنازعات کے بیج بوئے تھے اور اب ان لوگوں کی اگلی نسل یہ کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔“

رپورٹ میں ’مزمل ایوب ٹھاکر‘ کو نئی نسل کا ایک اہم کردار قرار دیا گیا ہے۔ ان سے متعلق کہا گیا ہے کہ 2016ء میں انہوں نے برطانیہ میں کشمیر سے متعلق کئی کمپنیاں اور تنظیمیں قائم کیں۔ ان سے متعلق یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک سربراہ کی سرپرستی میں ایک پاکستانی خاتون (معروف حریت رہنما غلام محمد صفی کی صاحبزادی شائستہ صفی) سے شادی کی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ”کشمیر کی آڑ میں پاکستان اپنے تذویراتی مقاصد پورے کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امریکی لابی فرموں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر پیسہ کمانے کی مشین بن چکا ہے۔ ’لانچ گڈ‘اور دیگر فنڈ ریزنگ مہموں سے حاصل ہونے والے فنڈز کے استعمال سے متعلق کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ یہ فنڈز دہشت گرد گروہوں سے بھی منسلک ہیں۔“

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستانی اشرافیہ کشمیرکو اپنی بقا کی حکمت عملی کیلئے استعمال کرتی ہے، خاص طور پر مخصوص ریاستی ادارے یہاں کی مفلوک الحال آبادی کو کشمیر کی ’افیون‘فروخت کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے مسائل سے بیگانہ ہو جائیں اور وسائل پر قبضہ جما رہے۔ جب بھی عوام اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں تو کشمیر کا نعرہ خلفشار کیلئے کام آتا ہے۔“

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”مسئلہ کشمیر نے ایک ایسا ’ایکو سسٹم‘ قائم کر لیا ہے جس سے خاندانوں کا ایک مجموعہ اپنی معاش اور مطابقت حاصل کرتا ہے۔ فائی، ٹھاکر، کنجوال، عشائی، فاضل، صفی اور ڈار خاندانوں نے اپنے خوابوں کی زندگی بسر کی ہے بلکہ وہ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی چمک بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس پاکستانی تخلیق کردہ تھیٹر میں صرف وہی چیزیں غائب ہیں جو خود کشمیری ہیں۔ ان کے کردار کو محض اشیا تک محدود کر دیا گیا ہے اور ان کے نام پر یہ’قابضین‘ بھرپور زندگی گزار رہے ہیں۔ لہٰذا بھارتی اور بالخصوص کشمیری عوام کیلئے یہ فرض کرنا کہ پاکستان اور اسکی اشرافیہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی دلچسپی ہو گی، مجرمانہ بیوقوفی ہو گی۔ پاکستانی اشرافیہ کیلئے کشمیر تنازعہ ایک ایسے’ہنس‘ کی طرح ہے جو سونے کے انڈے دیتی ہے اور بیوقوف بوڑھی عورت کے برعکس اس کا ہنس کو مارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔“

شخصیات اور تنظیمیں جن کا ذکر کیا گیا

ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں متعدد تنظیموں اور خاندانوں کے افراد کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف ’شجرے‘ ترتیب دیئے ہیں جن کے ذریعے سے انکے آپسی تعلقات اور پاکستانی ریاست و خفیہ اداروں سے انکے تعلق کو جوڑا گیا ہے۔ تاہم کچھ ایسی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا ہے جو جموں کشمیر میں بھارتی مظالم پر آواز اٹھانے والی بھارت کے دانشوروں یا صحافتی حلقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان شخصیات کو پاکستانی ریاستی اداروں سے متعلقہ تنظیموں کی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شریک ہونے کی بنا پر اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر ہر وہ آواز جو کشمیر سے متعلق بھارتی ریاستی موقف کو چیلنج کرتی ہے اور اس نے کسی بھی ایسی شخصیت یا تنظیم سے اگر رابطہ قائم رکھا ہے جو پاکستانی ریاست کی سپانسر ہو تو اسے جعلی یا پاکستانی پراکسی کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں سب سے پہلے ’مزمل ایوب ٹھاکر‘کا ذکر کیا گیا ہے جن کے نام پر 2016ء سے اب تک 7 مختلف تنظیمیں اور کمپنیاں کشمیر سے متعلق قائم کی گئی ہیں۔ دوسرا نام مزمل ایوب ٹھاکر کے والد ایوب ٹھاکر کا ہے جن کے غلام نبی فائی سے دیرینہ تعلقات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دونوں احباب 80ء کی دہائی سے مختلف تنظیمات قائم کر کے یہ کام کر رہے ہیں۔ 3 بڑی تنظیمیں ایوب ٹھاکر سے منسلک ظاہر کی گئی ہیں جبکہ عسکریت پسندی کو ہونیوالی فنڈنگ سے بھی انکا تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔

سید علی گیلانی کے ذریعے تربیت پانے والے غلام نبی فائی، ایوب ٹھاکر کے ساتھ ڈاکٹر محمد عبداللہ صدیقی کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ غلام نبی فائی کے حوالے سے کچھ ڈاکومنٹس اور حوالے بھی شامل کر کے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ 1990ء کی دہائی میں انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کے ذریعے کشمیری امریکن کونسل کے نام پر 40 ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔

جماعت اسلامی، کشمیر سنٹرز اور کشمیر کے نام سے قائم دیگر فورم اور تنظیمیں بھی اس فہرست میں شامل رکھی گئی ہیں۔ بیرسٹر عبدالمجید ترمبو، پروفیسر نذیر شال، غلام نبی میر، عبدالرؤف میر، یوسف فاضلی اور اکرم ڈار کا تعلق ’کشمیر امریکن کونسل‘، ’کشمیر سنٹر برسلز‘،’ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ‘، ’ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم‘، ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘، ’جسٹس فاؤنڈیشن‘اور ’مرسی یونیورسل‘ کے علاوہ جماعت اسلامی کشمیر سے ظاہر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں ان قیادتوں کی اقربا پروری کو بھی واضح کیا گیا ہے اور ’کشمیر انڈسٹری کی اقربا پروری‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ایک شجرے کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ ایوب ٹھاکر کے بیٹے مزمل ٹھاکر، اکرم ڈار کے بیٹے اعجاز ڈار، یوسف فاضلی کی صاحبزادی سمیرا فاضلی اور انکی کزن حفصہ کنجوال، ٹونی عشائی کی رشتہ دار شہلا عشائی، غلام محمد صفی کی بیٹی شائستہ صفی (جو مزمل ٹھاکر کی بیوی بھی ہیں) اور غلام نبی میر کے بیٹے ایمن میر اس کاروبارمیں ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔

’جسٹس فار آل‘، ’فری کشمیر/کشمیر ایکشن‘، ’سٹینڈ فار کشمیر‘ اور دیگر تنظیموں کا کشمیر امریکن کونسل کے ساتھ تعلق ظاہر کیا گیا ہے، جس کے خالق غلام نبی فائی کا تعلق پاکستانی خفیہ ادارے سے ظاہر کیا گیا ہے جبکہ ٹونی عشائی اور وزیراعظم عمران خان کے تعلقات بھی ظاہر کئے گئے ہیں۔

امریکہ میں کام کرنے والی ’فرینڈز آف کشمیر انٹرنیشنل‘ کو بھی اسی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ غزالہ حبیب خان، ان کے بھائیوں ناصر حبیب خان اور زبیر حبیب خان کو بھی امریکہ میں پاکستانی اداروں کیلئے کام کرنے والے اہم کرداروں کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔ ’کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ‘ کو بھی اسی منصوبے کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

’یوتھ فورم فار کشمیر‘، ’چنار انٹرنیشنل‘، ’کشمیر لا اینڈ جسٹس پراجیکٹ‘، ’جسٹس فاؤنڈیشن‘، ’جسٹس فار کشمیر‘، ’کشمیر کارپس‘ اور ’امریکنز فار کشمیر‘ کو بھی اسی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

مختلف یورپی اور امریکی قانون سازوں کو بھی انہی پراکسی اداروں کے ساتھ منسلک ظاہر کیا گیا ہے اور یہ قرار دیا گیا ہے کہ یہ شخصیات پاکستان کیلئے لابنگ میں کردار ادا کرتی ہیں۔

جعلی خبروں کو پھیلانے کا نیٹ ورک

ڈس انفو لیب کی اس رپورٹ میں جعلی خبروں کو پھیلائے جانے کیلئے استعمال ہونے والے طریقہ کار کا بھی تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ پاکستانی میڈیا اور ترکش میڈیا کی مدد سے پھیلائی گئی مختلف مبینہ جعلی خبروں کو رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

بھارتی دانشوروں کو ایجنٹ قرار دینا

اس رپورٹ میں بھارتی دانشوروں کو بھی کچھ مخصوص سیمیناروں یا پروگرامات میں شرکت یا تقریر کرنے کی وجہ سے پاکستانی اداروں کا پراکسی قرار دیا گیا ہے۔

ارون دھتی رائے کا نام اس لئے شامل کیا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں ایک کانفرنس میں ’خود مختار کشمیر‘ کی بات کی، مذکورہ کانفرنس میں غلام نبی فائی کی قیادت میں ایک وفد بھی شریک تھا۔ انگانا چیٹرجی کا نام بھی غلام نبی فائی کے ساتھ کسی ایونٹ میں شریک ہونے کی وجہ سے شامل کیا گیا ہے۔

نتاشا کول کا نام بھی اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ وہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف لکھ اور بول رہی ہیں۔ فلمساز سنجے کاک کا نام بھی شامل کیا گیا کیونکہ انہوں نے ایک فلم میں جموں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کیا۔

معروف صحافی انورادھا بھسین کا نام بھی اس لئے شامل کیا گیا کہ انہوں نے 2015ء میں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کرنا تھی لیکن وہ اپنے والد کی وفات کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکیں۔ مذکورہ کانفرنس غلام نبی فائی نے منعقد کروائی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غلام نبی فائی کی ہمدرد ہیں۔

سوچترا وجایان کا نام بھی اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ انہوں نے غلام نبی فائی کی جانب سے منعقدہ عالمی امن کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

بھارتی بائیں بازو کی سیاستدان کویتا کرشنن کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ انکا نام شامل کرنے کی وجہ انکا سنجے کاک، ارن دھتی رائے، گوتم نولکھا اور دیگر کے ہمراہ ’فری خرم‘ مہم چلانا قرار دیا گیا ہے۔

ارجن سیٹھی کا نام بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ لکھا گیا ہے کہ وہ کشمیر میں مظالم کے خلاف بولنے کے علاوہ شہلا عشائی، یسریٰ فاضلی اور دیگر کے ساتھ مل کر خالصتان فرنٹ چلاتے ہیں۔

مذکورہ رپورٹ میں ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منظم مہم چلانے کے حوالے سے اعداد و شمار بھی سامنے لائے گئے ہیں اور ان سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیریوں کی اپنی آواز سوشل میڈیا پر بھی آزادانہ طور پر سامنے نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے بھی ایک مخصوص نیٹ ورک کام کر رہا ہوتا ہے جس کے تانے بانے بھی کہیں نہ کہیں پاکستانی اداروں کے ساتھ جڑتے ہیں۔ رفعت وانی سمیت مختلف شخصیات کا تذکرہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلانے والوں کے طور پر بھی کیا گیا ہے۔

یورپی ڈس انفو لیب میں کیا تھا؟

یاد رہے کہ دسمبر 2020ء میں ای یو ڈس انفو لیب کی جانب سے بھارتی نیٹ ورک سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ 89 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارتی خفیہ ادارے را کی جانب سے تیار کردہ گروپ ’سری واستو گروپ‘ نے متعدد این جی اوز اور سیکڑوں میڈیا ویب سائٹس بنا رکھی ہیں اور بھارت کے کچھ بڑے میڈیا ادارے بھی اس گروپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

اس گروپ کا مقصد بھارتی مفادات کو تحفظ دینے اور پاکستان کے خلاف لابنگ کیلئے مختلف طریقہ استعمال کرنا ہے۔ یہ گروپ پاکستان مخالف معلومات کو پھیلانے، رائی کو پہاڑ بنانے اور مختلف این جی اوز کے ذریعے سے پاکستان کے خلاف سرگرمیاں منعقد کروا کر اور مختلف شخصیات کے انٹرویوز کر کے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر انڈیا اور دنیا بھر میں پھیلاتا ہے۔ انڈیا کی سب سے بڑی سرکاری نیوز ایجنسی ’ایشین نیوز ایجنسی‘ (اے این آئی) اس کام میں سب سے اہم کردار ادا کر رہی ہے، اس کے علاوہ ریپبلک ٹی وی، بزنس ورلڈ اور دیگر ادارے بھی اس کام میں شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ گروپ مختلف این جی اوز کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تنگ آ کر ملک چھوڑ کر بھاگ جانے والوں کو بھی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور ان کی گفتگو کو پھر ان نیوز اداروں کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف این جی اوز کے ذریعے پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف انسانی حقوق کمیشن اور یورپی پارلیمنٹ وغیرہ کے سامنے احتجاج منعقد کروانے اور انہیں پھیلانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔

اس گروپ نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں بلوچستان، گلگت بلتستان، پختونخوا، فاٹا اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے مختلف افراد اور سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندگان کو بھی بات رکھنے کے مواقع فراہم کئے ہیں۔ کئی لوگوں کو تو ایسی این جی اوز کے پلیٹ فارم سے یہ موقع فراہم کیا گیا جن کا اصل کام کاشتکاری وغیرہ سے متعلق تھا۔

رپورٹ کے مطابق اس عمل میں گلگت بلتستان سٹیڈیز، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن، بلوچ ویمن کمیشن، پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کام کرنیوالی تنظیموں، پشتون تحفظ موومنٹ، متحدہ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی سمیت دیگر تنظیموں کو انسانی حقوق کمیشن میں اپنی بات رکھنے کا موقع فراہم کیا جا چکا ہے۔ رپورٹ میں ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان لوگوں کو بات رکھنے کا حق نہیں تھا، یا ان کے اٹھائے گئے ایشوز کو عالمی سطح پر زیر بحث نہیں آنا چاہیے۔ نہ ہی ان تنظیموں کی ساکھ کو متاثر کرنا مقصد ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ ایک ملک کے ایک گروپ کی پراکسی بن کر کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی جن تنظیموں اور شخصیات کے نام ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ میں لکھے گئے ہیں ان میں یو کے پی این پی، جموں کشمیر نیشنل عوامی پارٹی، گلگت بلتستان سٹڈیز اور جموں کشمیر پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ شامل ہیں۔ یو کے پی این پی کے سربراہ شوکت علی کشمیری اور اہم عہدیدار جمیل مقصود کے نام لکھے گئے تھے اور مختلف پروگرامات میں انکی موجودگی اور تقاریر بھی دکھائی گئی تھیں جنہیں مختلف میڈیا میں نشر کیا گیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے کسی فرد کا نام نہیں لکھا گیا، بھارتی زیر انتظام کشمیر سے جنید قریشی کا ذکر کیا گیا اور انکی کچھ میڈیا کوریج بھی شامل کی گئی۔ جموں کشمیر پی ڈی آئی کے امجد ایوب مرزا کا نام لکھا گیا ہے۔ اور انکی میڈیا کوریج بھی رپورٹ میں شامل کی گئی تھی۔

دونوں ویب سائٹس کی حقیقت کیا ہے؟

8 ماہ کے دوران جاری ہونے والی دو الگ الگ تحقیقاتی رپورٹوں نے جہاں یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی اور ملکی سطح پر میڈیا میں نظر آنے والی تمام تر آوازیں جموں کشمیر کے عوام کی بجائے جموں کشمیر پر قابض ممالک کی پراکسی آوازیں ہی ہیں جنہیں مختلف ذرائع سے سامنے لایا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے اپنے حق میں مسئلہ کشمیر کا بیانیہ مرتب کرنے کیلئے بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور اس عمل میں کچھ خاندان مسلسل مستفید ہو رہے ہیں۔

تاہم دونوں ویب سائٹس کی تفصیل دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں تنظیموں کا مرکزی کام بھارتی اور پاکستانی پراکسی پروپیگنڈہ کو بے نقاب کرنے کی تحقیقات تک ہی محدود رہا ہے۔ دونوں ویب سائٹس کی قدر 1 ہزار ڈالر سے کم ہے، جبکہ دونوں ویب سائٹس کو روزانہ 300 سے کم افراد دیکھتے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ جعلی خبروں کو سامنے لانے کیلئے بھی مبینہ طور پر جعلی تنظیموں اور ویب سائٹس کا سہارا ہی لیا گیا ہے۔

دونوں رپورٹس نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ جموں کشمیر کی داستان عالمی سطح پر سپانسر شدہ داستان ہے۔ حقیقی داستان کو عالمی سطح پر کہیں بھی، کبھی بھی سامنے ہی نہیں آنے دیا گیا۔ یہ اس خطے کے نوجوانوں اور محنت کشوں پر ہی منحصر ہے کہ وہ اپنی تاریخ کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اپنی داستان کو عالمی افق پرخود سامنے لے آئیں اور نسل انسانی کی بقا کے نئے راستوں کی بنیادیں رکھیں۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔