نقطہ نظر

گیلا تیتر کے مطابق تو سب سے خونی لبرل یحییٰ خان ہونا چاہئے

فاروق سلہریا

مظلوم نور مقدم کی جسمانی لاش کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ اس کے سفاک قاتل ظاہر جعفر نے کیا البتہ نور مقدم کے کردار کو نوچنے میں ہزاروں چیلوں نے حصہ لیا۔ اور تو اور دو چار دن پہلے ایک گیلا تیتر بھی چیلوں کے غول میں شامل ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ گیلے تیتر تو چیلوں سے بھی بڑے مردار خور ہوتے ہیں۔

ویسے تو تیتر بے ضرر سا پرندہ ہے۔ بے چارے کو چیلوں سے نہیں ملانا چاہئے لیکن اگر تیتر کی تربیت سرکاری کینل (Kennel) میں ہوئی ہو تو علامہ اقبال یاد آ جاتے ہیں جن کے مطابق ممولے کو باز سے لڑایا جا سکتا ہے،تیتر اور چیل تو پھر بھی کزن کزن سے لگتے ہیں۔

گیلا تیتر ایک پرانی خبر لایا ہے کہ ظاہر جعفر خونی لبرل تھا کیونکہ وہ نشے کرتا تھا، بہت امیر تھا، رنگ رلیاں مناتا تھا اور ناچ گانے کی محفلیں سجاتا تھا۔

ہم لوگ جو ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے ہم بھی اس قسم کے افسانے سنا کرتے تھے۔ ظاہر جعفر شائد تب پیدا بھی نہیں ہوا ہو گا۔ ویسے گیلے تیتر اس دور میں بھی ہوتے تھے۔ ہم سنتے تھے کہ ایک شرابی تھا جو دن رات رنگ رلیاں مناتا تھا، ناچ گانے کی محفلیں سجاتا تھا۔ ظاہر جعفر تو صرف امیر تھا، وہ ملک کا بادشاہ تھا اور نام تھا یحییٰ خان۔

گیلا تیتر خونی لبرل کی جو ’Defintion‘ کر رہا ہے اس کے مطابق تو ظاہر جعفر معمولی سا خونی لبرل ہے۔ اس کے بدبو دار ہاتھوں پر فقط ایک ناحق خون کے دھبے ہیں۔

جس خونی لبرل کا ذکر ہم بچپن میں سنتے تھے، اس نے تو سنا ہے بیسویں صدی کا ایک بڑا جینو سائڈ منظم کیا تھا۔ معلوم نہیں گیلا تیتر ایسے باخبر پرندے کو یہ بریکنگ نیوز کیوں نہیں ملی۔

اگر خونی لبرلز کو بدنام ہی کرنا ہے تو ظاہر جعفر جیسے معمولی لبرل پر ویلاگ کرنے سے فائدہ۔ اصل خونی لبرل پر کیو ں نہیں؟

گیلا تیتر یہ اہم خبر بھی لایا ہے کہ چونکہ ظاہر جعفر ناچ گانے کی پارٹیاں کرتا تھا، اس لئے خونی لبرل اس کے خلاف کچھ نہیں بولتے۔ جس خونی لبرل کا تذکرہ ہماری نسل سنتے ہوئے جوان ہوئی اس کے بارے میں لبرل تو کیا جماعت اسلامی بھی چپ رہتی تھی بلکہ میاں طفیل محمد نے تو فرمایا تھا کہ جنرل یحییٰ ’مجاہد اسلام‘ہیں۔

گیلا تیتر نے والدین کو خبردار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو ان خونی لبرلزسے محفوظ رکھیں۔ مجھے بے محالہ ایک اور خونی لبرل یاد آیا جو پنجاب کے گورنر ہاؤس میں رہتا تھا۔ اس خونی لبرل کا قصہ حبیب جالب نے نظم کی صورت لکھا۔ نظم کو ایک فلمی گیت کی شکل دی گئی۔ امید ہے گیلا تیتر جب غصے میں نہیں ہوتا تو موسیقی بھی سنتا ہو گا اس لئے اس نے یہ گیت تو سنا ہو گا:

’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘

گیلا تیترجی! کیوں نہ اگلا ویلاگ میانوالی کے اس گورنر بارے ہو جائے؟

پس نوشت: ویسے جس طرح کی کردار نگاری چیلیں اور گیلے تیتر ظاہر جعفر کی کر رہے ہیں، اس کے مطابق وہ لبرل تو نہیں البتہ یوتھیا ضرور لگتا ہے۔ اگر اس نے پچھلے الیکشن میں ووٹ دیا تھا تو مجھے امید ہے پی ٹی آئی کو دیا ہو گا۔ ویسے گیلے تیتر یہ خبر کیوں نہیں لاتے کہ اس نے ووٹ کس پارٹی کو دیا تھا؟

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔