حارث قدیر
20 سال کی تربیت اور اربوں امریکی ڈالرز کے اخراجات سے تیار ہونے والی افغان فوج اور حکومتی اہلکار کے طالبان کے ہاتھوں بکنے کا انکشاف ہوا ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے نچلے حصوں کے درمیان دیہی علاقوں میں معاہدوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
ایک افغان افسر اور ایک امریکی عہدیدار کے مطابق طالبان رہنما افغان افواج کو ہتھیار ڈالنے کے بدلے میں رقم کی پیشکش کر رہے تھے۔ درجن سے زائد افغان پولیس افسر اور دیگرکے انٹرویوز کے مطابق ڈیڑھ سال کے دوران یہ ملاقاتیں دیہاتوں سے ضلعی سطح تک اور پھر تیزی سے صوبائی دارالحکومتوں تک پہنچ گئیں اور افغان فورسز کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ دارالحکومت کابل میں پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔
افغان سپیشل فورسز کے ایک افسر نے ہتھیار پھینکنے والے افسران و اہلکاران کے علاوہ مدد فراہم کرنے والے افغان سرکاری حکام سے متعلق کہا کہ ”کچھ لوگ صرف پیسہ چاہتے تھے جبکہ کچھ نے مکمل انخلا کے امریکی عزم کو اس یقین دہانی کے طور پر دیکھا کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اوروہ جنگ جیتے والوں کے ہاں اپنی جگہ پکی کرنا چاہتے تھے۔“
ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ ”دوحہ معاہدہ نے افغان فوج کا مورال گرایا جبکہ کرپٹ افغان عہدیداروں اور مرکزی حکومت سے سخت وفاداری کرنے والوں کو کچھ راحت ملی، کچھ افسران نے شکایت کی کہ انہیں 6 یا اس سے زیادہ ماہ کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں۔“
افسر کا کہنا تھا کہ ”انہوں نے دوحہ معاہدے کو اختتام کے طو رپر دیکھا اور جس دن معاہدے پر دستخط ہوئے اسی دن سے ہر کوئی اپنے لئے راستہ تلاش کر رہا تھا، یہ ایسا ہی تھا جیسے امریکہ نے ہمیں ناکام ہونے دیا۔“
طالبان کی پیش قدمی کے نتیجے میں افغان حکومت کے زیر انتظام اضلاع تیزی سے بغیر کسی لڑائی کے فتح ہوتے گئے۔ قبائلی عمائدین کی ثالثی کے نتیجے میں قندوز میں ہتھیار ڈالنے کا معاہدہ ہوا اور پہلا کلیدی شہر طالبان کے قبضہ میں چلا گیا، اس طرح حکومت کو زیر کنٹرول آخری اڈہ بھی طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔ مغربی صوبے ہیرات میں ایک ہی رات میں طے پانے والے مذاکرات کے نتیجے میں گورنر، وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام اور سیکڑوں فوجیوں نے استعفیٰ دے دیا۔
گزشتہ ماہ جنوبی صوبہ ہلمند میں بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈالے گئے، جنوب مشرقی صوبے غزنی کا گورنر طالبان سے تحفظ حاصل کر کے فرار ہو گیا جسے افغان حکومت نے کابل میں گرفتار کیا۔
قندھار میں سپیشل فورسز کے ایک افسر کے مطابق اسے کمانڈر کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ بارڈر پولیس نے فوری طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔ یونٹ کے اراکین نے اپنے ہتھیار ڈال دیئے اور شہری لباس پہن کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ گئے۔
رپورٹ کے مطابق سپیشل فورسز کے افسروں کو دونوں اطراف سے خطرہ تھا کہ اگر طالبان کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے تو حکومت کی طرف سے طالبان کو بیچ دیئے جائیں گے۔ پولیس افسران کو 6 سے 9 ماہ کی تنخواہیں نہیں دی گئی تھیں، ایسے میں طالبان کی جانب سے ادائیگیاں مزید پرکشش ہو گئی تھیں۔
ایک افغان پولیس افسر نے کہا کہ ”امریکہ کی عدم موجودگی میں کرپشن کے الزام میں پکڑے جانے کا خوف بھی نہیں تھا۔ نااہلی کے مقابلے میں کرپشن زیادہ تباہی کی ذمہ دار ہے۔“
رپورٹ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ افسران اور ذمہ داران تنخواہوں کی ادائیگی کی بجائے مال کما رہے تھے اور فورسز کے اہلکاران کو تنخواہیں نہ ملنے کی صورت میں طالبان کی جانب سے ملنے والی رقوم زیادہ پرکشش معلوم ہو رہی تھیں۔
ایک افسر نے بتایا کہ طالبان حکومتی اہلکاران اور فورسز اہلکاران کو ابتدا میں ہتھیار ڈالنے کیلئے 150 ڈالر کی پیشکش کر رہے تھے۔ تاہم اب کیا قیمت لگ رہی تھی یہ وہ نہیں جانتا تھا۔