ناصر اقبال
موجودہ افغانستان کی کی تقریباً تین سوسالہ تاریخ میں کافی سقوط ہو چکے ہیں اس لیے راقم نے عنوان میں ہی یہ وضاحت ضروری خیال کی کہ آج کے کالم کا مرکزی موضوع 15 اگست 2021ء والے سقوط کے متعلق ہی ہے جوکہ ہمارے پیارے لالہ اشرف غنی کی لاجواب سروس اوربے خوف قیادت کے زیر اثر و اہتمام برپا ہوا۔ بظاہر اچانک ہو جانے والے اس واقعہ نے دنیا بھر میں میڈیا، فکری او رریاستی حلقوں میں بحث و مباثہ اورخیال آرایؤں کا بازار گرم کر دیا ہے جوکہ عین قدرتی امر ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں نے امریکی موقع پرستانہ پالیسیوں اور کچھ نے اشرف غنی انتظامیہ کی کرپشن کو مورد الزام ٹہرایا۔
اسی کابل والے معاملے میں ہماری تمام ترقی پسند دوستوں سے گذارش ہے کہ انہیں اس ضمن میں کوئی فکری، عقلی جواز گھڑنے کی کی قطعاً ضررورت نہیں ہے کیونکہ 2001ء سے 2021ء تک کے تمام معاملے کا فکر، منطق یا عقل سے بالکل نہیں ہے یا تھا یا یہ معاملہ کہساروں اور امریکہ بہادر کا کوئی اندرونی یا آپسی معاملہ ہو سکتا ہے اور ہم کون ہوتے ہیں رائے زنی کرنے والے۔ لیکن کیا کریں عوام یا دوستوں کا جو ہم سے پھر پوچھتے ہیں کہ’وہ کیا ہوا‘ پس۔
اس سلسلے میں ہماری پہلے سے ہی عرض ہے چونکہ اس معاملہ کا تعلق فکر سے تو ہے ہی نہیں اس لیے اس سوال کا جواب شاید فکر کی وادی سے مل ہی نہیں پائے گا۔ اس لیے فکر، فلاسفی یا کسی نظریہ کا مسئلہ تو ہوا ختم۔ ہاں البتہ اگر فن ’دیہاڑی بازی‘ کو اگر تھوڑی تفصیل سے سمجھ لیا جائے تو شاید کوئی مناسب جواب بن پائے۔
پہلے پہل ہم سمجھتے تھے کہ دیہاڑی بازی شاید کوئی خالصتاً پاکستانی فن یا رجحان ہے خیر دھیرے دھیرے سمجھ آئی کہ یہ کوئی لوکل مسئلہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ جہاں کار ہو گی وہاں جاپان تو ہو گا کے مصداق جہاں سرمایہ ہو گا وہاں دیہاڑی باز تو ہو گا۔ جہاں سرمایہ داری اور دیہاڑی بازی عالمگیریت اختیار کر لیں تو یہ پھر کیسے ممکن ہے کہ وہاں امریکہ نہیں ہو گا۔
دیہاڑی بازی کوئی پیچیدہ فن یا ترکیب نہیں بس ایک عدد سرمایہ دار پارٹی جو کچھ سیاسی، سماجی یا کاروباری مقاصد رکھتی ہو اور لوگوں کو اس کا پتہ چل جائے ظاہر ہے کہ ان مقاصد کو خفیہ تو رکھا نہیں جا سکتا بس اسی دوران دیہاڑی باز سرمایہ دار ”پارٹی“ کو تاڑ لیتے ہیں۔ پھر طرح طرح کے سبز باغ، منصوبے اور ’Ideas‘ پیش کئے جاتے ہیں پھر عملدرآمد کے لیے رقم حاصل کی جاتی ہے۔ خاص بات صرف یہ ہے کہ دیہاڑی باز آخری وقت تک مالک کو دھوکہ دیئے رکھتے ہیں کہ کام ہورہا ہے جی، بس اب کام صرف چند دنوں میں مکمل ہونے والا ہے بس…وغیرہ۔ جب مالک پر حقیقت عیاں ہوتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
1944ء میں ہونے والی’Bretton Woods Conerence‘ کے بعد امریکہ نے جہاں ایک طرف آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ذریعے سے سرمایہ داری کے جال میں پوری دنیا میں پھیلانے اور سرمایہ کی سامراجیت کی سعی کی تو دوسری طرف امریکہ دنیا بھر کے د یہاڑی بازوں کے نشانے پر بھی آ گیا۔ یوں رضیہ غنڈوں میں گھری اور واشنگٹن ڈی سی آج کے دن تک دیہاڑی بازوں، چوروں اور ٹکے ماروں کی عالمی آماجگاہ بن چکا ہے۔
دنیا کاشاید ہی کوئی ملک بچا ہو جس کے حکمران طبقات نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں۔ تیسری دنیا کے حکمران تو ایک طرف رہے، ایسی بیشمار مثالیں ریکارڈ پر ہیں کہ امریکہ کے اپنے بڑے بڑے اداروں نے باکمال اور کامیاب دیہاڑیاں لگائیں البتہ اس میں کچھ ناکام داستانیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔
تیسری دنیا میں یہ بھی رواج کہ جب کوئی امیر آدمی یا پارٹی کسی مسئلہ یا مصیبت کا شکار ہو جائے تو بھی دیہاڑی باز حرکت میں۔ 11 ستبر 2001ء کا واقعہ ہی امریکہ کے لیے ایک ناگہانی آفت سے کم نہ تھابلکہ فوراً بعداسے افغانستان اور عراق سے جنگ بھی چھیڑنی پڑی۔ یاد رہے ہم اس کالم میں ہم امریکہ کی غلطیوں، اچھایوں یا برائیوں پرکوئی بحث نہیں کر رہے اور نا ہی ہمارا کوئی مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ امریکہ کہاں تک درست تھا اور کہاں پر غلط۔
چناچہ اکتوبر 2001ء میں امریکہ نے افغانستان پر ہلہ بول دیا، فتوحات کے بعد قومی حکومت قائم کرنا پڑی جس کے لیے بحرحال افغان شہری ہی در کار تھے۔ بس پھر کیا تھا کونوں کھدروں سے سواریاں نکل کر سیدھا واشنگٹن ڈی سی پہنچیں۔ افسوس سابق شاہ کابل مرحوم ظاہر شاہ پر جنہوں نے فرانس میں واشنگٹن کے لیے قصد کیا اس امید کے ساتھ کہ شاید ان کی گمشدہ بادشاہت پھر سے بحال ہو جائے مگر حسرت ان غنچوں پہ…
قرعہ فال حامد کرزئی کے نام نکلا۔ 2001ء سے 2014ء تک امریکہ کی حمایت سے ملک کے صدر رہے۔ اپنے طویل عہد صدارت میں ماسوائے پاکستان کو برا بھلا کہنے کے ان کے پلے کچھ بھی نہیں۔ ایک دفعہ تو انہوں نے صدر پرویز مشرف کے خاصے لتے لینے کے بعد جنگ کی دھمکی بھی دے ڈالی تھی۔ ویسے بائی دی وے اگر انہوں نے اپنی گالیوں کی توپوں کا رخ اگر تھوڑا سا بھی اپنے حقیقی دشمنوں کی طرف کیا ہوتا تو شاید 15 اگست کی شام نہ آتی۔ ان کی منطق اقتدار جو ہماری سمجھ میں آسکی وہ یہ تھی کہ طالبان سے جنگ امریکہ لڑے، ملک میں اٹھنے والے دیگر اخراجات امریکہ ادا کرے اور صدر مملکت صرف احکامات کی منظوری دے اوربس۔ حامد کرزئی کے 13 سالہ اقتدار اور چکربازیوں کے بعد آخرکار امریکی قیادت کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہو ہی گیا لہٰذا انہوں نے کرزئی پر سے ہاتھ اٹھا لیا۔
ہم یہاں ذرا امریکی سوچ یا طریقہ کار کے ارتقاء کا ذرا جائزہ لیں گے۔ ایک پروفیسر سے جان چھڑوا کر اقتدار ایک بینک ملازم کو سونپ دیا گیا یعنی بات پھر اشرف غنی تک پہنچ گئی۔ امریکہ کو تو یہی پر ہی صلح کر لینی چاہیے تھی لیکن شاید اشرف غنی نے امریکی قیادت کو کیسے کیسے سبز باغ دکھائے ہوں اگر کبھی سی آئی اے کی ’Archives‘ کھلیں تو ان رازوں سے بھی پردہ اٹھ جائے گا۔ اشرف غنی کلی طور پر اپنے پیش رو پروفیسر کرزئی کے نقش قدم پر چلے بس فرق صرف فوٹو کا تھا۔ان کے ”فن“ کا اندازہ صرف اسی بات سے لگا لیں کہ انہوں نے امریکہ کے بزرگ ترین اور زیرک ترین صدر یعنی مسٹر جیوبائڈن کوکس طرح کی یقین دہانی سے ماموں بنایا ہو گا کہ ابھی صرف چند دن پہلے مسٹر بائڈن امریکہ میڈیا کو یقین دہانی کروا رہے تھے کہ تین لاکھ فوج، جدید ہتھیار اور اشرف غنی راشا راشا (زندہ باد)۔
15 اگست کو سواری ’رنگون‘ پہنچ گئی۔ عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور حکمت یار البتہ کابل میں موجود ہیں اس نیت کے ساتھ کہ شاید پھرسے باری لگ جائے۔ اس بیس سالہ دور میں دیہاڑی بازی ایک اور دلچسپ وقوعہ ہوا۔ مسٹر پروفیسر اوبامہ کا دور تھا اور سال شاید 2012ء کا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ایک پالیسی متعارف کروائی کہ اگر کوئی طالبان گروپ ہتھیار ڈال دے توبدلے میں اسے خاصی بڑی رقم ادا کی جائے گی۔ چنانچہ ایک طالبان لیڈر نے ہتھیار ڈالے، پیسے لیکر رفو چکر اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ کوئی طالبان لیڈر نہیں بلکہ کوئٹہ کا ایک’شریف آدمی‘ تھا۔
اس کالم کو لکھنے کا مقصدکسی کی دل آزاری یا کسی کی کردار کشی کرنا نہیں بلکہ عالمی دیہاڑی بازی کے معاملات اور نقصانات کو اجاگر کرنا ہے۔ یہاں اور سوالات بھی ہیں کہ کیا دیہاڑی صرف افغان قیادت نے لگائی نہیں ایسی بات بالکل نہیں اس عمل میں بیشمار غیر افغان، ممالک اور خاص طور پر ’NATO‘ ممالک شامل ہیں۔ اشرف غنی تو محض ایک مثال بن گیاہے وہ بھی اس لیے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلاگیا۔ اب ان تمام دیہاڑی بازوں کو موقع مل جائے گا کہ وہ اشرف غنی کو لعن تعن کر اپنی اپنی دیہاڑیوں کو آرام اور عزت کے ساتھ ہضم کر سکیں گے۔
افسوس اس بات کا بھی ہے کہ امریکی دعوے کے مطابق افغان جنگ میں ٹریلینز ڈالرز میں خرچہ ہوا۔ یہ تمام رقم یا تو امریکی عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی کی گئی اور امریکہ چونکہ پوری دنیا سے سود یا کسی اور مد میں رقوم اکھٹی کرتا ہے یعنی اس جنگی خرچ کا بوجھ ساری دنیا کے عوام نے برداشت کیا۔ پھر افسوس اس بات کا بھی ہے کہ اس بیس سالہ جنگ کے اصل یا حقیقی متاثرین تو افغان عوام ہیں اور تھے۔ ان ٹریلینز ڈالرز میں سے شاید ایک پینی بھی افغان عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہ ہو سکی۔