لاہور (جدوجہد رپورٹ) گزشتہ 15 سالوں کے دوران 400 اعلیٰ سرکاری ملازمین نے ایک ایک اضافی پرائم گورنمنٹ پلاٹ حاصل کئے جن کی مجموعی مالیت 25 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ ’دی نیوز‘ کے مطابق یہ اضافی عالی شان پلاٹ کچھ سینئر سرکاری ملازمین کو ایک متنازعہ پالیسی کے تحت الاٹ کئے گئے ہیں، جو سابقہ حکومتوں کی طرف سے منظور کی گئی تھی۔
فی کس 500 مربع گز پر مشتمل ان پلاٹوں کی مارکیٹ ویلیو 25 ارب روپے تھی جبکہ ان اضافی سرکاری پلاٹوں کے حصول کیلئے افسران بشمول ججوں، وفاقی سیکرٹریز، ڈائریکٹر جنرلز، مختلف خود مختار اداروں کے سربراہان اور سینئرسرکاری ملازمین نے صرف 1.6 ارب روپے جمع کروائے۔
ان سرکاری ملازمین جن میں سے تقریباً 80 فیصد پنشن پرجا چکے ہیں نے متنازعہ سکیم کے تحت فی کس ایک کنال زمین کا اضافی پلاٹ بھی وصول کیا، جو ماضی میں وقتاً فوقتاً معطل یا ختم ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے اضافی پلاٹ فراہم کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کی تحریک کی جانے کے باوجود ن لیگی حکومت نے اس پالیسی کو بحال کیا۔ تین درجن کے قریب سینئر ترین سرکاری ملازمین نے اس عرصے کے دوران پولیس فاؤنڈیشن، کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن سے اجتماعی طور پر 4 سے زیادہ پلاٹ حاصل کئے۔
22 ویں گریڈ کے 34 سے زائد افسران، جو ریٹائر ہو چکے ہیں، اس اسکیم کے تحت ایک اضافی پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان میں سے کچھ اس اسکیم کی حقیقی روح کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت بھی گئے۔
سرکاری ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے مہنگے اضافی پلاٹ سرکاری ملازمین کو سیکٹرای سیون، ای الیون، جی الیون، ڈی 12، ایف فورٹین، ایف ففٹین اور دیگر سیکٹروں میں دیئے گئے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اسے ایک متنازعہ پالیسی قرار دیا ہے اور ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، صحافیوں اور دیگر کو پلاٹوں کی تقسیم کا سلسلہ ختم کرنے کی سفارش کی ہے۔
40 سے زائد اعلیٰ عدالتوں کے ججوں (جن میں 4 سابق چیف جسٹس ہیں)، ایف آئی اے کے 5 ڈائریکٹر جنرلوں، 6 پرنسل سیکرٹریوں، صوبوں کے 17 چیف سیکرٹریوں، 16 داخلہ سیکرٹریوں، 11 اسٹیبلشمنٹ سیکرٹریوں، 18 کابینہ سیکرٹریوں، ایف بی آر کے 10 چیئرمینوں، 17 انسپکٹر جنرل پولیس، سی ڈی اے کے 11 چیئرمینوں، سپریم کورٹ کے 4 رجسٹراروں، صدر کے 7 سیکرٹریوں اور کئی دیگر سیکرٹریوں کو اس دوران اسلام آباد میں ایک ایک اضافی پلاٹ ملا۔ تقریباً 22 ویں گریڈ کے 12 سینئر سرکاری ملازمین کی بیویاں (جو خود بھی سینئر افسران تھیں) بھی اس عرصے کے دوران ایک ایک اضافی پلاٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
تازہ ترین بولی میں 2 درجن سے زائد سیکرٹریوں نے سیکرٹری ایف فورٹین اور ایف ففٹین میں اضافی پلاٹ حاصل کئے ہیں۔ ان پلاٹوں کیلئے 5 سے 7 ملین روپے کی معمولی قیمت ادا کی گئی ہے جبکہ اس جگہ پر ہر ایک پلاٹ کی قیمت 40 سے 60 ملین روپے کے درمیان ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق وزارت قانون نے 2013ء میں سرکاری افسران اور دیگر کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار دے رکھی ہے۔ پلاٹوں کی مارکیٹ ویلیو اور الاٹمنٹ کیلئے طے شدہ رعایتی قیمت کے درمیان فرق قابل ٹیکس ہے لیکن سرکاری ملازمین میں سے کسی نے بھی اس قیمت کو ٹیکس کیلئے پیش نہیں کیا ہے۔ ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے بیوروکریٹوں پر ٹیکس قوانین نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے غیر قانونی طور پر یہ عمل ان کیلئے ٹیکس بن جاتا ہے۔