افغانستان کی موجودہ صورت حال پر آسٹریلوی جریدے گرین لیفٹ ویکلی کی نمائندہ پی ہنمین نے حزب ہمبستگی (سالیڈیرٹی پارٹ) کے رہنما شایان سے انٹرویو کیا۔ اس کا ترجمہ جو غلام علی مرتضیٰ نے کیا ہے قارئین جدوجہد کے لئے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
سوال: انسداد دہشت گردی، خواتین کے حقوق کی بحالی اور جمہوریت کا فروغ، یہ وہ بظاہر اغراض و مقاصد تھے جن کو جواز بنا کر مغربی ممالک نے افغانستان پر اپنا تسلط قائم کیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مغربی ممالک کی فوجوں کا انخلا تقریباً مکمل ہونے کو ہے اور طالبان اقتدار پر دوبارہ قابض ہو چکے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حالات نے ایسا رخ اختیار کیا اور معاملات اس ڈگر پر چل پڑے؟
جواب: 17 اکتوبر 2001ء کو امریکہ اور اس کے شریک جرم نیٹو نے افغانستان پر حملہ کیا اور ہمارے لوگوں پر جمہوریت، حقوق نسواں اور انسداد دہشت گردی کی آ ڑ لے کر بم برسائے گئے۔ تاہم جیسا کہ ایک سامراجی ملک سے توقع کی جا سکتی ہے، امریکہ کے اصلی عزائم ان بلند و بالا دعوؤں کے برعکس تھے۔ امریکہ نے شمالی اتحاد کے ان جنگجوؤں کو جو جنگی جرائم میں ملوث رہے مسند اقتدار پر بٹھا دیا اور ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کی غرض سے دنیا کے سامنے ان کو جمہوری رہنماؤں کے طور پر پیش کیا گیا۔
عبدالرسول سیاف اور برہان الدین ربانی جیسے افراد جو آ ج کے دہشت گردوں کے پیش رو کی سی حیثیت رکھتے ہیں ان کو حکومتی عہدوں سے نوازا گیا۔ افغان حکومت نے شدت پسندوں کو مدرسے چلانے کی کھلی اجازت دی جہاں دہشت گردوں کی ایک نئی کھیپ نے جنم لیا۔ مزید برآں اس نے حزب التحریر اور جمعیت اصلاح جیسی شدت پسند تنظیموں کو کام کرنے کی بے لگام آ زادی بھی مہیا کی۔
کٹھ پتلی حکومت نے دکھاوے کے لیے کچھ خواتین کو پارلیمنٹ اور حکومت میں شامل کیا لیکن یہ کرائے کے لوگ تھے جن کا کام امریکہ کی غلیظ پالیسیوں کی حمایت میں پروپیگنڈا کرنا تھا۔ افغان حکومت جنگی مجرموں، شدت پسندوں، وارلارڈز اور بدمعاشوں پر مشتمل تھی۔ ہم نے کبھی اس پر بھروسہ نہیں کیا۔ دوسری طرف امریکہ طالبان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل، کھیل رہا تھا۔ ان سب باتوں سے کافی حد تک آ ج کے سیاسی منظر نامے کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
سوال: امریکی صدر کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی اب مزید افغانستان میں قیام نہیں کر سکتی اور افغانوں کو اب اپنے ملک کے لیے خود لڑنا ہو گا۔ آپ کی صدر بائیڈن کے اس بیان کے حوالے سے کیا رائے ہے؟
جواب: افغانستان کی عوام نے امریکہ یا دیگر قابض ممالک کی فوج کو مدعو نہیں کیا تھا۔ امریکہ نے ان طاقتوں کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا جو سرد جنگ کے دوران اس کے حلیف رہے تھے۔ یہ یقینا ہماری جنگ نہ تھی۔ ہمارے ملک کو صرف ایک میدان جنگ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ افغانستان پر حملے کا مقصد روس، چین اور ایران کے خلاف محاذ آرائی کے لیے راہ ہموار کرنا تھی۔ ایس پی اے نے ہمیشہ غیر ملکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کی ہے کیونکہ یہ طاقتیں شدت پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دے رہی تھیں۔ شدت پسندی کا جرثومہ سرد جنگ کے دوران امریکہ ہی کا پیدا کردہ ہے۔ امریکہ نے ہمارے ملک کو دہشت گردی کا گڑھ بنا دیا ہے۔ اصل متاثرین تو افغان عوام ہیں۔
سوال: کیا افغانستان ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں مختلف ممالک اپنی پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں؟
جواب: جی ہاں! افغانستان کو میدان جنگ میں بدل دیا گیا ہے جہاں مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ امریکہ چین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہیں۔ ایران اور سعودی عرب بھی اپنے گماشتوں کے ذریعے یہاں نبرد آزما ہیں۔
ان پراکسی جنگوں میں مزید شدت آئے گی۔ یہ جنگیں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان گزشتہ چالیس برس سے میدان جنگ ہے اور ہماری معیشت کا انحصار جنگ پر ہے۔ ان قوتوں نے ہمارے نوجوان طبقے کو بے روزگار رکھا ہے تاکہ با آسانی ان کو مختلف جنگجو گروپس اور پراکسی جنگوں کے لیے استعمال کر سکیں۔
سوال: آپ کے خیال میں طالبان کے زیر اثر حکومت کی ساخت اور ڈھانچہ کیسا ہو گا؟ کیا یہ طالبان کی پچھلی حکومت سے مختلف نوعیت کی حکومت ہو گی؟
جواب: طالبان کی طرف سے یہ دعویٰ کہ ان میں کچھ بدلاؤ آ یا ہے محض ایک دکھاوا ہے جس کا مقصد اپنی حکومت کو دنیا سے تسلیم کروانا ہے۔ ایک اور ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ طالبان کی شہروں میں موجودگی نئی ہے تو وہ چاہیں گے کہ کسی طریقے سے شہری آ بادی کے دل جیتے جائیں لیکن جونہی ان کی حکومت کی تشکیل مکمل ہوتی ہے اور اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہو گی وہ بربریت کی طرف لوٹ آئیں گے۔
ہم ماضی قریب میں ہونے والے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ آخر یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے کابل یونیورسٹی اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ یہ لوگ افغان شہریوں کے اغوا اور قتل میں ملوث رہے ہیں۔ میرے خیال میں کچھ نہیں بدلا۔
سوال: آسٹریلیا پر دباؤ ہے کہ وہ مہاجرین کو مستقل سکونت اختیار کرنے کا موقع فراہم کرے اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مزید مہاجرین کا اپنے ملک میں داخلہ ممکن بنائے۔ اس کے علاوہ ہماری کیا مانگیں ہونی چاہئیں؟ ہم کیسے جنگی جرائم کے مرتکب لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا سکتے ہیں؟
جواب: آسٹریلین اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتیں اس تباہی کی بڑی وجہ ہیں۔ چند ہزار افراد کو مستقل سکونت کا حق دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ ایسا ہو بھی جائے تو اس سے چند افغان ہی مستفید ہو پائیں گے۔
ان حکومتوں کو افغانستان میں اپنی مداخلت بند کرنا ہو گی۔ علاوہ ازیں ان کو جنگی جرائم کے مرتکب افغان جنگی مجرموں اور شدت پسندوں کی حمایت ترک کرنا ہو گی۔ بین الاقوامی عدالت ِانصاف کو جنگی جرائم میں ملوث افغانوں کی گرفتاری کا حکم جاری کرنا چاہیے۔