دنیا

غریب ممالک ہی کرپٹ کیوں ہیں؟

فاروق سلہریا

”کرپشن پرسیپشن انڈیکس 2018ء“ کے عنوان سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس سال بدعنوان ترین اور شفاف ترین ممالک کی جو فہرست جاری کی ہے اس کے مطابق دس شفاف ترین ممالک مندرجہ ذیل ہیں:

(1) ڈنمارک (2) نیوزی لینڈ (3) فن لینڈ (3) سنگا پور (3) سویڈن (7) سوئٹزرلینڈ (7) ناروے (8) نیدرلینڈز (9) کینیڈا (9) لکسمبرگ

ہو سکتا ہے آپ کومندرجہ بالا نمبرنگ تھوڑی عجیب لگے۔ یہ نمبرنگ پوائنٹس کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ایک جیسے پوائنٹس حاصل کرنے والے ممالک کو مشترکہ نمبر دیا جاتا ہے۔

اسی فہرست کے مطابق دس بد عنوان ترین ممالک مندرجہ ذیل ہیں:

(180) صومالیہ (178) شام (178) یمن (176) شمالی کوریا (172) سوڈان (172) گنی بساؤ (172) اکواٹوریل گینیا (172) افغانستان (170) لیبیا

ایسا کیوں ہے کہ ہر سال جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کرپشن پرسیپشن انڈیکس(سی پی آئی) رپورٹ جاری کی جاتی ہے تو بد عنوان ترین ممالک میں تیسری دنیا کاہی کوئی ملک سر فہرست ہوتا ہے جبکہ سکینڈے نیویا یا سامراجی بلاک کا کوئی ملک ہی شفاف ترین قرار پاتا ہے؟

اس کا ایک جواب تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی اپنی ہیرا پھیری ہے جسے نظریاتی کرپشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہی صفحات پر چند دن قبل بھی کہا گیا تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بد عنوانی کے حوالے سے دو فہرستیں جاری کرتی ہے۔ ایک جسے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) بولا جاتا ہے اور دوسری جسے برائب پیئرز انڈیکس (Bribe Payers Index) یا ’بی پی آئی‘ بولا جاتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی نظریاتی ہیرا پھیری دو سطحوں پر ہوتی ہے۔ اول طریقہ کار۔ اس کے بھی کئی پہلو ہیں۔ ایک اہم تنقید تو یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بد عنوانی کی تعریف کیسے مقرر کرتی ہے اور یہ کہ بدعنوانی کی پیمائش اور ناپ تول کیسے کی جاتی ہے۔جب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے نوے کی دہائی میں کام شروع کیا تو کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کرنا شروع کیا۔

کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں رشوت لینے کی بنیاد پر ممالک کو بد ترین یا شفاف ترین قرار دیا جاتا ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ یہ فہرست کسی ملک بارے سرمایہ کاروں کے خیالات (Perceptions) کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد اعداد و شمار یا تجرباتی ثبوت (Empirical Evidence) پر نہیں ہوتی۔

کرپشن پر تحقیق کرنے والے سکالر اس حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے اندر سے بھی اس نظریاتی ہیرا پھیری پر آواز اٹھنے لگی ہے۔ مثلاً اس ادارے کے ایک بنیادی رکن فریڈرک گلٹونگ نے صرف رشوت لینے والے ممالک کی فہرست پر اعتراض کیا اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل چھوڑ کر ٹیری (Tiri) نامی ایک انسداد بدعنوانی کی تنظیم میں کام شروع کر دیا۔ جب تنقید بڑھنے لگی تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے’سی پی آئی‘ کے ساتھ ساتھ ’بی پی آئی‘ یعنی رشوت لینے والے ممالک کی فہرست بھی جاری کر نا شروع کر دی۔

’بی پی آئی‘ پہلی دفعہ 1999ء میں جاری ہوئی اورآخری بار 2011ء میں۔ یہ ہے نظریاتی ہیرا پھیری کا دوسرا پہلو۔ پچھلے بیس سالوں میں ’بی پی آئی‘ تو پانچ دفعہ جاری ہوئی مگر’سی پی آئی‘ کم از کم سال 2001ء سے ہر سال جاری کر دی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر کمرشل میڈیا نکال دیتا ہے۔ میڈیا ’سی پی آئی‘ کو تو خوب اچھالتا ہے مگر ’بی پی آئی‘ کا ذکر گول کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً 9 جولائی کو یہ رپورٹ لکھنے کے دوران میں نے ’سی پی آئی‘ اور’بی پی آئی‘ کو گوگل کیا۔ ’سی پی آئی‘ کے نتیجے میں گوگل نے 13,100,000 رزلٹ دئیے جبکہ ’بی پی آئی‘سرچ کرنے پر گوگل نے128,000 رزلٹ دئیے۔

2011ء میں جو ’بی پی آئی‘ جاری ہوئی اس کے مطابق دس بد عنوان ترین ممالک مندرجہ ذیل تھے:

(28) روس (27) چین (26) میکسیکو (25) انڈونیشیا (23)متحدہ عرب امارات (23) ارجنٹینا (23) سعودی عرب (9) ترکی (19) انڈیا(19) تائیوان (15) جنوبی کوریا

گویا ایک بات تو واضح ہو گئی کہ بات یہ نہیں کہ غریب ممالک ہی کرپٹ ہیں۔ بلکہ امیر اور مذہبی ممالک بھی بدعنوان ہیں۔ دوسرایہ دیکھنا چاہئے کہ بد عنوانی کا فتویٰ کون جاری کر رہا ہے۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایک سامراجی این جی او ہے جو ابتدائی طور پر دیگر اداروں کے علاوہ ورلڈ بینک کی مالی، عملی اور اخلاقی مدد سے بنائی گئی تھی۔

پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ بد عنوانی کی”تعریف“ کیسے مقرر کی جا رہی ہے اوراس کی پیمائش کیسے کی جا رہی ہے۔

ذرا سکینڈے نیویاکی مثال لیجئے۔ پچھلے دو سالوں میں ڈنمارک اور سویڈن کے بڑے بینک منی لانڈرنگ کے بد ترین سکینڈلوں میں ملوث رہے۔ ڈنمارک کے ڈانسک بینک (Danske Bank) کی اسٹونیا میں برانچ سے200 ارب یورو کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ سویڈن کے سوید بینک (Swedbank)کی اسٹونیا میں برانچ سے 3.3 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوئی۔ اس کے باوجود سویڈن اور ڈنمارک شفاف ترین ممالک ہیں کیونکہ کرپشن کی تعریف اور پیمائش کا جو طریقہ کار ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل اپناتی ہے وہی ناقص ہے۔

سوئٹزر لینڈ کی مثال لیجئے۔ دنیا بھر سے لوٹ مار کا پیسہ اس ملک کے بینکوں میں چھپایا جاتا ہے لیکن بدعنوان بے چارہ صومالیہ ہے!

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔