محمد اکبر نوتزئی
ترجمہ: سلیم شیخ
بلوچستان کی سیاست عرصہ سے وینٹی لیٹر پر زندہ ہے۔ اس نے صوبہ کے عام لوگوں کو تو مایوس کیا ہی ہے مگر ان سیاسی رہنماؤں کو بھی مایوس کیا ہے، جنہوں نے اسے بہت پہلے ہی کوما کی حالت میں جاتے دیکھا تھا۔ ان ہی رہنماؤں میں سے ایک تھے سردار عطا اللہ مینگل، جو اس ماہ کے اوائل میں بانوے برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔
انیس سو باسٹھ میں روشنیوں کے شہر کراچی میں پہلی دفعہ سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے سیاسی افق کے مستقبل پر چمکتے ہوئے روشن ستارے کی طرح سامنے آئے۔ کراچی میں لیاری، جو بلوچوں کی ایک بڑی آبادی ہے، کے ککری گراؤنڈ میں ہونے والے جلسہ میں بلوچستان کے اس شعلہ بیاں سردار نے میدان میں موجود مجمع کو لوٹ لیا۔
ون یونٹ کے زمانے میں مغربی پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے کے باوجود، اس وقت نسبتاً غیرمعروف، سردار عطا اللہ مینگل نے ون یونٹ اور ایوب خان کی فوجی حکومت کے خلاف ایسی تقریر کی جس نے مجمع میں موجود بلوچوں اور خاص طور پر بلوچ نوجوانوں کے لہو کو گرما دیا۔ نتیجتاً سردار عطا اللہ مینگل کو حکومت مخالف تقریر کرنے کی پاداش میں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔
بات محض گرفتاری پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایوب حکومت نے مزید سزا کے طور پر، سردار عطا اللہ مینگل کو، جو 1954ء میں پچیس سال کی عمر میں بلوچ قبائل کے ایک بڑے قبیلے مینگل قبیلے کے سردار منتخب ہوئے تھے، کو سرداری سے ہٹا کر انکی جگہ ان کے کزن کرم خان مینگل کو سردار بنا دیا۔ یہ بات قبائلی روایات کے منافی تھی۔
روایتی طور پر بلوچ قبائل میں رہنما یا سردار متفقہ اور اجتماعی طور پر قبائلی خود منتخب کرتے ہیں۔
اس وقت کی حکومت نے سردار عطا اللہ مینگل کو سرداری سے ہٹا کر مینگل قبیلے سے انکا یہ روایتی حق چھین لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نئے سردار کرم خان کو اس کی سرداری کے بارہ دن کے مختصر عرصہ میں ہی نیند کی حالت میں قتل کر دیا گیا۔ ایوب حکومت نے اس قتل کو بنیاد بناتے ہوئے ایک بار پھر سردار عطا اللہ مینگل کو انکے والد رسول بخش مینگل اور دیگر قبائلیوں کے ساتھ سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔
ککری گراؤنڈ کی تقریر نے عطا اللہ مینگل کے لیے عوامی سیاست کا دروازہ کھول دیا۔ وہ نہ صرف ایک نئے بلوچ سیاسی چہرے کے طور پہچانے جانے لگے بلکہ لیاری سے لے کر بلوچستان کے چائے خانوں اور سیاسی حلقوں میں ہونے والے سیاسی مباحثے بھی ان کی شخصیت کے گرد گھومنے لگے۔ لیاری سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مصنف رمضان بلوچ اپنی کتاب’بلوچ روشن چہرے‘ میں لکھتے ہیں کہ سردار عطا اللہ کی وہ ککری گراؤنڈ کی تقریر ان کی شخصیت کی طرح آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے اور اس تقریر کے بعد لیاری میں شاید ہی کوئی بلوچ گھر ایسا تھا جس کی دیوار پر سردار عطاء اللہ مینگل کی تصویر نہیں تھی۔
دو ستمبر کو بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی وفات کے ساتھ ہی بلوچ سیاست کا ایک دور بھی ختم ہو گیا۔
سردار عطا اللہ بلوچ سیاست میں اپنے اصولوں اور ان اصولوں کی پاسداری کے باعث اپنا ایک الگ مقام اور پہچان رکھتے تھے۔ گو کہ انہیں سیاست میں لانے کا سہرا بلوچستان کی سیاست کے جد امجد میر غوث بخش بزنجو کے سر جا تا ہے، لیکن سردار عطا اللہ کی سیاست اپنے سیاسی استاد سے ذرا بھی مشابہت نہیں رکھتی تھی۔
معروف امریکی مصنف سیلگ ایس ہیریسن اپنی 1981ء میں چھپنے والی کی کتاب…اِن افغانستانز شیڈو: بلوچ نیشنل ازم اینڈ سوویت ٹیمٹیشن…میں سردار عطا اللہ مینگل کی شخصیت کی خاکہ نویسی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”پتلے دبلے چھریرے بدن، چمکتی ہوئیں سیاہ آنکھیں اور احتیاط سے تراشی کالی داڑھی کے ساتھ، عطا اللہ مینگل اپنے رویہ میں اپنے دوسرے دو بلوچ ساتھیوں، نواب خیر بخش مری اور میر غوث بخش بزنجو، کے مقابلہ میں زیادہ بلوچ ہیں۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس مخصوص اَکّھڑ لہجہ میں، جو روایتی طور پر بلوچ ثقافت کا خاصہ اور قابل احترام سمجھا جا تا ہے، سیدھی اور کھری بات کرتے ہیں۔ مری یا بزنجو کے مقابلے میں فکری اور نظریاتی حوالوں سے، اپنی تعلیم وتجربہ کی کمی کے باعث، وہ بڑے بڑے دعوے کرنے سے احتراز کرتے ہیں“۔
اگرچہ بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا لاوا عرصہ سے اندر ہی اندر ابل رہا تھا، لیکن یہ 1970ء کی دہائی تھی جب یہ آتش فشاں پھٹ پڑا۔ وفاق کے دائرہ کار میں ہی رہتے ہوئے بلوچ حقوق کے لیے آخری کوشش کی نیت سے سردار عطا اللہ مینگل اور دیگر ہم خیال بلوچ قوم پرست 1957ء میں قائم ہونے والی ملک کی پہلی بڑی بائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) کا حصہ تھے۔
1970ء کے عام انتخابات میں این اے پی نے بلوچستان اور اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (صوبہ سرحد اور اب خیبر پختونخوا) میں اکثریت حاصل کی اور پھر جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں صوبائی حکومتیں تشکیل دیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود، بلوچ اور پختون قوم پرست دونوں کو اس بات کی امید تھی کہ پاکستان کے وفاقی نظام کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہی وہ اپنے حقوق کے لیے پرامن اور جمہوری طریقے سے جدوجہد کرسکیں گے۔
سردار عطا اللہ مئی 1972ء میں بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ بنے۔ گو کہ آج کے مین اسٹریم میڈیا میں عموماً سرداروں کو تعمیروترقی اور تعلیم کے ایک ایسے مخالف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو اپنی سرداری اور قبائلی نظام نہیں چھوڑنا چاہتے۔ مگر اس حقیقت کے باوجود کہ وہ خود ایک سردار تھے، حکومت بنانے کے بعد سب سے پہلا کام جو سردار عطا اللہ نے کیا وہ اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے سرداری اور فرسودہ قبائلی نظام کو ختم کرنا تھا۔
گو وہ صوبائی اسمبلی سے سرداری اور قبائلی نظام کے خاتمہ کی ایک قرارداد تو منظور کروانے میں کامیاب رہے مگر سرداری نظام نوآبادیاتی دور سے وفاقی حکومت کے زیر انتظام چلا آرہا تھا جہاں اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی جس نے اس قرارداد کو قانون میں تبدیل کرنے میں دلچسپی نہیں لی اور یہ معاملہ سرد خانہ کی نذر ہو گیا۔
مزید برآں، مرکز میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے فروری 1973ء میں بلوچستان میں این اے پی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو برطرف کر کے وزیراعلیٰ سردار عطا اللہ اور گورنر بزنجو کے علاوہ دیگر سینئر سیاست دانوں، دانشوروں اور ادیبوں کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔
مرکزی حکومت کے اس اقدام کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبہ سرحد کی حکومت نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ اس واقعہ کے بعد بلوچستان میں چوتھا مسلح تصادم شروع ہو گیا جو اگلے پانچ سال تک جاری رہا۔ اس تصادم کا اختتام بالآخر 1977ء میں جنرل ضیا الحق کے فوجی قبضے کے نتیجہ میں بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہوا۔
بلوچستان میں جو کچھ ہوا اسنے سردار عطا اللہ اور دیگر بلوچ قوم پرستوں کو انتہاپسندی کی طرف مائل کیا۔ جنرل ضیا کی جانب سے جیل سے رہائی ملنے کے بعد سردار عطا اللہ نے لندن میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی۔ گو کہ وہ انیس سو نوے کی دہائی میں جلاوطنی ختم کرکے واپس بلوچستان آئے مگر ان کے خیالات میں پاکستان کے بارے میں آئی مایوسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
تاہم اسکے باوجود 1996ء میں انہوں نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی بنیاد رکھی جس نے وزیر اعلیٰ اختر مینگل کی سربراہی میں 1997ء میں بلوچستان میں صوبائی حکومت بنائی جو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی کامیاب جوڑ توڑ کے نتیجہ میں صرف 16 ماہ بعد 1998ء میں ختم ہو گئی۔
سردار اختر مینگل اب بھی بلوچستان میں بی این پی کے سربراہ اوراس وقت خود قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور ان کی جماعت کے ارکان کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں نشستیں موجود ہیں۔
سردار عطا اللہ کو وسطی بلوچستان کے ضلع خضدار میں ان کے آبائی شہر وڈھ کے ایک ویران علاقے میں دفن کیا گیا۔ کئی سوگواران اور صحافیوں کے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ قصبے کے قریب قبرستان کے ہوتے ہوئے سردار عطا اللہ کو وڈھ سے کئی کلومیٹر دور ایک ویران علاقے میں کیوں دفن کیا جا رہا ہے جہاں صرف ایک بنگلہ ہے جو سردار عطا اللہ مینگل کے بڑے بیٹے جاوید مینگل کا ہے جو بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی گزار رہے ہیں۔
سردار اختر مینگل نے سوگواروں اور صحافیوں کو بتایا کہ یہ جگہ ان کے والد کی پسندیدہ جگہ تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں معروف بلوچ مدبر میر نصیر خان نوری اکثر خیمہ زن ہوا کرتے تھے۔ نوری کے لیے بلوچ تاریخ میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور خوبیوں کے ذریعے بلوچوں کو متحد کیا۔ سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ”میرے والد کی وصیت کے مطابق انہیں یہاں دفن کیا گیا ہے۔ وہ اکثر اس جگہ پر آتے تھے اور وہ اس جگہ کو پسند کرتے تھے“۔
میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر بگٹی کے بعد اب سردار عطا اللہ مینگل کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد گویا بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا ایک پورا دور ختم ہو گیا ہے۔ ان کی وفات پر ایک پرانی افریقی کہاوت یاد آتی ہے: ”کسی بوڑھے کا مرنا ایک کتب خانے کے جل کر خاکستر ہونے جیسا ہوتا ہے“۔
سردار عطا اللہ مینگل کی وفات کے ساتھ ہی ایک ایسے سیاسی دور کے کتب خانہ کا خاتمہ ہو گیا ہے جس پر ابھی تحقیق کی جانی باقی تھی۔ انہوں نے کبھی اپنی سوانح عمری نہیں لکھی۔ بقول ان کے بیٹے اختر مینگل کے ایک بار جب ان سے لکھنے کو کہا تو جواب ملا: ”سوانح عمری لکھنے کے لیے سچ لکھنا پڑتا ہے اور مجھے جھوٹ بولنا آتا نہیں“۔
بشکریہ روزنامہ ڈان