21 فروری 2021ء کو ڈاکٹر لال خان کی پہلی برسی کی مناسبت سے "روزنامہ جدوجہد” ان کے لکھے گئے مضامین قارئین جدوجہد کے لئے دوبارہ شائع کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر لال خان کی یاد میں 19 فروری کو ایک ویبینار اور 20 فروری کو خصوصی نمبر بھی شائع کیا جائے گا۔
لال خان
ایک تواتر و تسلسل کے ساتھ، اٹھتے بیٹھتے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ مقابلہ بازی کی غیر یقینی صورتحال اور منافع کی ہوس ہی سائنس و ٹیکنالوجی کو نئی ایجادات اور دریافتوں کی طرف لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ آزاد منڈی کی معیشت ہی سماجی ترقی کا حتمی راستہ ہے۔ حقیقت اس پراپیگنڈا سے مختلف ہی نہیں الٹ ہے۔ جملہ حقوق (Patents)، منافع خوری اور نجی ملکیت وہ سفاک رکاوٹیں ہیں جن کا سامنا شاید ہی سائنس کو کبھی تاریخ میں کرنا پڑا ہو۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانی ترقی کے ہر شعبے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔
سرمائے کی پیدا کردہ لالچ اور ہوس کا ایک اہم شعبہ دواسازی ہے جو ایسے سبھی مریضوں کو دوائی دینے کی نیت اور ارادے سے محروم ہے جو سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ تمام بڑی عالمی دواساز اجارہ داریاں ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے انسان دشمن عزائم پر عمل پیرا ہیں۔ مثلاً ایڈز کے مریض اپنے علاج پر ہر سال ہزاروں لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ 2003ء میں جب ’Fuzeon‘ نامی دوا متعارف کرائی گئی تو اس کی قیمت دیکھ کر ہی اس موذی مرض میں مبتلا لوگوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ یہ دوائی ایڈز کے مریض کو سال بھر کے علاج کیلئے 20 ہزار ڈالر (20 لاکھ روپے)میں پڑتی تھی۔ اس دوا کو بنانے والی عالمی اجارہ داری ’Roche‘ کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو فرانز ہومر نے دوائی کی زیادہ قیمت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ’’کہ ہم جو بھی نئی دوا تیار کرتے ہیں تو اس خدمت کامناسب معاوضہ بھی اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔‘‘ یہاں ’’خدمت کا مناسب معاوضہ‘‘ سے مراد کئی سو فیصد شرح منافع ہے جو ادویات کو آبادی کیا اکثریت کی پہنچ سے دور کر دیتی ہے۔ آبادی کا ایک قلیل سا حصہ ہی اس ’’خدمت‘‘ کو خریدنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
دواساز کمپنیوں کا مقصد مرض کا علاج نہیں بلکہ منافع ہے۔ ایک دواسازکمپنی کیلئے مرض میں مبتلا انسان کسی طور ایک ’’مریض ‘‘نہیں ہوتا بلکہ ایک ’’گاہک‘‘ ہوتاہے۔ مرض کی اذیت جتنی زیادہ ہوگی، گاہک کی مجبوری اور کمپنی کا منافع بھی اسی تناسب سے بلند ہو گا۔ ادویات سازی کی عالمی صنعت کا یہ ہمیشہ سے مالیاتی مفادرہاہے کہ ان کا گاہک بار بار ان کی ادویات خریدنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ ایسی ریسرچ پر توجہ دی جاتی ہے جس کے ذریعے مرض کا مستقل علاج نہ ہوسکے۔ دواساز ادارے ایسی دوائیاں تخلیق کرنے پر زور دیتے ہیں کہ مریض انہیں ساری عمر استعمال کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
علاوہ ازیں ان شعبوں میں ریسرچ کی جاتی ہے جو زیادہ منافع بخش ہیں۔ مثلاً تپ دق جیسی بہت سی بیماریاں دنیا میں عام ہیں جو سراسر غربت کی پیداوار ہیں۔ غریب چونکہ مہنگی ادویات نہیں خرید سکتے لہٰذا ایسی بیماریوں کے موثر علاج یا پیشگی تدارک پر تحقیق منافع بخش نہیں ہے۔ اس کے برعکس ’’گوری رنگت‘‘ اور ’’گھنے بالوں‘‘ جیسے امیر طبقے کے شوق پورا کرنے والی ادویات دن رات مارکیٹ میں آتی ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ایڈزکے علاج کیلئے ایک ویکسین تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہاہے جوکہ ایک موثر مائیکرو بائیسائیڈ ہو۔ اس مقصد کیلئے زیادہ تر فنڈز حکومت یا پھر نان پرافٹ تنظیموں کی طرف سے مہیا کئے جا ر ہے ہیں۔ دواساز صنعت اس مہلک و سفاک بیماری سے نمٹنے کیلئے کوئی فنڈنگ نہیں کر رہی ہے۔ وہ ایسا کریں بھی کیوں؟ کرہ ارض پر کوئی بھی کمپنی کسی ایسے کام پر کبھی سرمایہ نہیں لگائے گی جس سے ان کا کاروبار ہی بند ہوجائے۔
اسی قسم کے مسائل ہمیں ادویات کی تحقیق کے دوسرے شعبوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کیلئے 2007ء کے شروع میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی تھی۔ یونیورسٹی آف البرٹا کے محققین نے دریافت کیا کہ ایک واحد اور اکلوتا مالیکیول ’DCA‘ کینسر کے خلیوں میں ’Mitochondria‘ (جوخلیے کا پاور ہاؤس ہوتا ہے) کو دوبارہ سرگرم کر سکتا ہے۔ لیبارٹری کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ’DCA‘ کینسر کی بیشتر قسموں کے خلاف موثر وکارگر ہے۔ یوں واضح اور یقینی امکانات سامنے آگئے کہ کینسر کا حقیقی علاج دریافت ہونا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ لیکن ’DCA‘ کو کلینیکل سطح پر سمجھنے، پرکھنے اور بروئے کار لانے کیلئے جو رکاوٹ سامنے آئی وہ ’’فنڈز‘‘کی عدم فراہمی تھی۔ اس عدم دلچسپی یا عدم فراہمی کی وجہ سیدھی ہے کہ ’DCA‘ کے جملہ حقوق (Patent) محفوظ نہیں اور ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ اس وجہ سے عالمی دواساز کمپنیاں اس دوا کو بنانے کیلئے سرمایہ فراہم کرنے کا کوئی خطرہ اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں کیونکہ یہ دوا کسی طور بھی ان کیلئے منافع بخش نہیں بن سکتی۔ انہیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ یہ دوا بنے یا نہ بنے، کینسر کا علاج اور خاتمہ ہو یا نہ ہو۔ اس حوالے سے تحقیق کرنے والوں سے معذرت کر لی گئی کہ اگر وہ اپنے کام کو جاری رکھنے کے اتنے ہی شوقین ہیں تو اس کیلئے درکار رقم کا بھی خود ہی بندوبست کریں۔ متعلقہ سائنسدان حکومت اور نان پرافٹ اداروں سے فنڈز کیلئے آج تک بھیک مانگ رہے ہیں۔
معروف آن لائن امریکی جریدے ’’ہفنگٹن پوسٹ‘‘ پر کچھ سال پہلے ایک مضمون ’’امریکہ کو دیوالیہ کر دینے والی دوائی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں دواسازی سے وابستہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دیوہیکل لوٹ مار سے متعلق ہوشربا انکشافات کئے گئے ہیں۔ مضمون میں ہیپائٹس سی کے علاج کے لئے ’Gilead Sciences‘ نامی کمپنی کی نئی دوا ’Sovaldi‘ کو کیس سٹڈی کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ امریکی حکومت کی منظوری کے بعد یہ دوا دسمبر 2013ء میں مارکیٹ میں آئی تھی جس کے 12 ہفتوں کے کورس کی قیمت 84 ہزار ڈالر تھی۔ یوں دوا کی ایک گولی کی قیمت ایک ہزار ڈالر بنتی تھی۔ اس کے برعکس گولی کی پیداواری لاگت صرف 68 ڈالر تھی۔ متعلقہ فارمولے پر اس کمپنی کے جملہ حقوق 2028ء تک برقرار رہیں گے یعنی اگلے کئی سال تک یہ کمپنی منہ بولی قیمت وصول کرتی رہے گی۔ رپورٹ کے مطابق کمپنی صرف 2014ء میں اس دوا کی فروخت سے 12.4 ارب ڈالر کا منافع کما چکی ہے۔
دوا ساز کمپنیاں عام طور پر ریسرچ کی لاگت کو ادویات کی بلند قیمتوں کا جواز بنا تی ہیں جو سراسر جھوٹ ہے۔ دوسری تمام معروف ادویات کی طرح اس دوائی پر بھی زیادہ تر ریسرچ سرکاری شعبے میں سرکاری فنڈنگ ، یعنی عوام کے پیسے سے ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ’’نجی شعبے کی تمام ریسرچ کی لاگت صرف 500 ملین ڈالر تھی جو دوا کے مارکیٹ میں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی پوری ہو گئی۔‘‘
یہ صورتحال کسی ایک دوا یا مخصوص کمپنی تک محدود نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ادویات پر زیادہ تر ریسرچ سرکاری یونیورسٹیوں میں عوامی پیسے سے ہوتی ہے جسے نجی شعبہ ’Patent‘ کے ذریعے یرغمال بنا کر انسانی فلاح کی بجائے ہوشربامنافعوں کا ذریعہ بنا لیتا ہے۔ منافع اور صحت ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔
’’مقابلہ بازی‘‘ پر مبنی ’’آزاد منڈی‘‘ کا ہی شاخسانہ ہے کہ امریکہ کا نظام صحت دنیا میں سب سے مہنگا ہونے کے باوجود سب سے نااہل اور غیر موثرہے۔ اس کے برعکس منافع کی ہوس سے پاک کیوبا کا ریاستی نظام صحت دنیا میں سب سے زیادہ موثر شمار ہوتا ہے جہاں اوسط عمر امریکہ سے زیادہ ہے۔ امریکہ اپنےجی ڈی پی کا 18 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے جبکہ کیوبا صرف 7 فیصد اخراجات کے ساتھ اس سے کہیں بہتر نتائج حاصل کر رہا ہے۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی جس مقام پر ہے وہاں نہ صرف کینسر اور ایڈز جیسی لاتعداد ’’لاعلاج‘‘ بیماریوں کا علاج دریافت کرنا ممکن ہے بلکہ صحت اور علاج کی جدید ترین سہولیات کرہ ارض کے ہر انسان کو فراہم کی جاسکتی ہیں۔ امراض کی اکثریت ایسی ہے جن کا تدارک وقت سے بہت پہلے ہی کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ مناسب نظام صحت وضع کیا جائے۔ لیکن مسئلہ منافع اور شرح منافع کا ہے جس کے تحت مالیاتی ترجیحات کا تعین ہوتا ہے
2 ہزار ارب ڈالر ہر سال صرف اسلحہ سازی پر خرچ ہوتے ہیں۔ 32 ہزار ارب ڈالر ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے آف شور بینکوں کی تجوریوں میں یرغمال بنا رکھے ہیں۔ یہ اتنا پیسہ ہے کہ اگر تباہی اور استحصال کی بجائے نسل انسان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو ہر انسان کو جدید سائنسی علاج سمیت بلند ترین معیار کی خوراک، رہائش اور تعلیم فراہم کی جاسکتی ہے۔ محرومی، لاعلاجی اور مانگ سے پاک انسانی معاشرے کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دولت اور ذرائع پیداوار کو مٹھی بھر حکمران طبقے کی جکڑ سے آزاد کروا کے منافعوں کی بجائے نسل انسان کی ضروریات کے تحت بروئے کار لایا جائے!