تاریخ

کامریڈ ٹامس سنکارا: افریقی چی گویرا

خضر منظور

34 سال قبل آج کے دن 15 اکتوبر 1987ء کو برکینا فاسو کے صدر ٹامس سنکارا کو فوجیوں نے گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا۔ 33 برس کی عمر میں اقتدار سنبھالنے والے سنکارا محض 37 برس کی عمر میں قتل کر دئیے گئے۔ انہیں براعظم افریقہ کے ”چی گویرا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سنکارا ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ کامریڈ سنکارا نے صدر بننے کے کچھ ہی عرصے بعد کہا تھا ”انقلاب کا اصل مقصد سامراجیت کے غلبے اور استحصال کو شکست دینا ہے“۔

سابق فائیٹر پائلٹ ٹامس سنکارا نے اقتدار سنبھالتے ہی کرپشن کے خاتمے کا عزم کیا۔ وہ ایڈز جیسے بڑھتے ہوئے موذی مرض کے خلاف آواز بلند کرنے اور آگاہی پھیلانے والے اولین افریقی رہنما تھے۔ ببانگ دہل ورلڈ بینک کے پروگراموں پر تنقید صرف سنکارا ہی کا خاصا تھا۔ انہوں نے افریقی معاشرے میں خواتین کے ختنے اور کثرت ازدواج کے خلاف بھی مؤثر آواز اٹھائی۔ اپنے سادہ طرز زندگی سے عوامی پذیرائی حاصل کی۔ جب وزیر تھے تو سائیکل پر دفتر جاتے اور صدر بنے تو حکومت کی مرسڈیز گاڑیوں کا کارواں بیچ دیا۔ سنکارا برکینا فاسو ہی نہیں بلکہ پورے افریقہ اور بالخصوص مغربی افریقہ میں ایک استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ آج بھی سڑکوں پر گھومتی ٹیکسیوں کے پیچھے، جوانوں کی زیب تن کی ہوئی شرٹس پر ان کی تصاویر نظر آتی ہیں۔ وہ ایک ایسے رہنما کے طور پر آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں جس نے محب وطن ہو کر اپنے ملک اور عوام سے پیار کیا۔ افریقہ سے پیار کیا اور اس مقصد کی خاطر جان قربان کر دی۔ ٹامس سنکارا نے برکینا فاسو کا نام اپر وولٹا سے بدل کر برکینا فاسو رکھا جس کا مطلب راہ راست پر چلنے والے لوگوں کی سرزمین ہے۔ برکینا فاسو موسی زبان کا لفظ ہے جو اس ملک کی اکثریت کی زبان ہے۔

کامریڈ سنکارا نے کفایت شعاری مہم خود سے شروع کرتے ہوئے اپنی اور تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی۔ ہوائی سفر کے دوران سرکاری افراد پر فرسٹ کلاس ٹکٹ لینے پر اور حکومتی شوفر استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ان کے چار سالہ دور اقتدار میں شرح خواندگی 13 فیصد سے بڑھ کر 73 فیصد ہو گئی اور اس عرصے کے دوران ملک بھر میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ویکسینیشن کی بھرپور مہم چلائی گئی۔ سنکارا نے مقامی وڈیروں سے زمین لے کر غریب کسانوں میں تقسیم کی جس سے کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ سنکارا نے جدید نو آبادیاتی نظام کے اداروں مثلاً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ سے بچنے کے لئے متحدہ افریقہ کا نظریہ پیش کیا۔ ان کا ایک قول تھا: ”جو تمہیں کھلاتا ہے وہی کنٹرول کرتا ہے“۔ سامراج مخالف خارجہ پالیسی اختیار کر کے سنکارا نے فرانس کو چیلنج کیا جو افریقہ میں موجود برکینا فاسو سمیت دیگر کئی سابق کالونیوں پر غلبہ روا رکھے ہوئے تھا۔ موت کے 34 سال بعد بھی سنکارا برکینا فاسو ہی نہیں بلکہ پورے افریقہ کے نوجوانوں میں مقبول ہیں اور نوجوان انہیں اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔

ٹامس سنکارا کے قتل کے بعد ان کے سابق دوست بلئیس کومپارو اقتدار میں آئے جنہوں نے سنکارا کے ساتھ مل کر چار سال قبل 1983ء میں ملک کی کمان سنبھالی اور ٹامس سنکارا کو صدر بنایا۔ کامریڈ سنکارا کی موت کے وقت کومپارو ان کی حکومت کے وزیر تھے۔ کومپارو کے مطابق ان کے کمانڈوز نے سنا کہ سنکارا کومپارو کو قتل کرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کمانڈوز فوری طور پر صدارتی محل گئے جہاں انہوں نے بلا سوچے سمجھے سنکارا اور ان کے 12 ساتھیوں پر گولیاں چلا دیں۔ پہلے کومپارو کہا کرتے تھے کہ ان (کومپارو) کے آدمی سنکارا کو گرفتار کرنا چاہتے تھے مگر سنکارا نے فائرنگ کی۔ کومپارو نے اپنے دوست کو قتل کر کے قبر میں دفن کرایا۔ سنکارا کے خون سے رنگی مسند اقتدار پر بیٹھنے کے بعد سے 2014ء میں زبردستی معزولی تک کومپارو ’فرانک افریقہ‘ کے اہم ستون سمجھے جاتے رہے جہاں دور غلامی کے خاتمے کے بعد بھی فرانس کا غلبہ برقرار رہا۔ وہ 2014ء میں ملک گیر مظاہروں کے بعد اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ کومپارو اس وقت پڑوسی ملک آئیوری کوسٹ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور آئیوری کوسٹ نے انہیں برکینا فاسو کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ بارہا ٹامس سنکارا کے قتل میں کسی قسم کے کردار سے انکار کر چکے ہیں اور مقدمے کی کارروائی کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہیں۔ 27 سالہ دور اقتدار کے دوران کومپالہ نے اپنے دور اقتدار کو طوالت دینے کی غرض سے آئینی ترامیم کرنے کی کوششیں بھی کیں لیکن 2014ء میں عوامی غضب کے باعث انہیں نہ صرف اقتدار چھوڑنا پڑا بلکہ جان بچانے کی خاطر ملک سے بھی بھاگنا پڑا۔

سنکارا کی بیوہ نے خاوند کے قتل کے خلاف 1997ء میں مقدمہ درج کرایا تاہم ملکی سپریم کورٹ کو تفتیش کی اجازت دینے میں 15 سال لگ گئے۔ 2014ء میں سنکارا کی قبر کشائی کی گئی لیکن ڈی این اے کے ذریعے تصدیق نہ ہو سکی کہ یہ لاش انہی کی ہے۔ 2016ء میں برکینا فاسو کے حکام نے فرانس سے سنکارا کے قتل سے متعلق فوجی کاغذات منظر عام پر لانے کا باقاعدہ مطالبہ کیا۔ 2017ء میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے سنکارا کیس کے تمام کاغذات کو ڈی کلاسیفائی کرنے کا اعلان کیا۔ ان کاغذات کو تین سطحوں پر کھولا گیا اور برکینا فاسو کے حوالے کیا گیا۔ آخری فائلیں اپریل 2021ء میں برکینا فاسو کو ملیں لیکن اب تک دئیے گئے کاغذات میں سنکارا کے قتل کے وقت کے فرانسیسی صدر فرینکوئس مٹرلینڈ کے دفتر کا کوئی ایک بھی کاغذ نہیں ہے۔ ان کے بیہمانہ قتل کے خلاف اس سال باقاعدہ مقدمے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ مقدمے میں کل 14 افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے کے ٹرائل میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ ٹریبونل میں فوجی افسران اور سویلین دونوں طبقات کو نمائندگی دی گئی ہے۔ مقدمے میں سب سے اہم شہادت گلبرٹ ڈینڈئیرے کی ہو گی اور وہ واحد ملزم ہیں جو فوجی یونیفارم میں مقدمے کی پیشیاں بھگتیں گے۔ گلبرٹ سابق صدر موکپارو کا دایاں بازو سمجھے جاتے تھے، ان پر سٹیٹ سکیورٹی پر حملہ کرنے، قتل میں معاونت، لاشوں کو چھپانے اور شاہدین کو رشوت دینے جیسے الزامات ہیں۔ گلبرٹ ڈینڈئیرے پہلے ہی 2015ء میں ناکام فوجی بغاوت کے دوران کردار ادا کرنے کے باعث 20 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ گلبرٹ ڈینڈئیرے کے علاوہ ٹامس سنکارا کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر دستخط کرنے والے ڈاکٹر ڈئیبرئے جین کرسٹوفر کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سابق صدر کی طبعی موت ہوئی۔ ان پر سرکاری کاغذات میں جھوٹ لکھنے کا الزام ہے۔ سابق صدر کومپارو کے سابق سکیورٹی چیف حیاسنتھے کفنڈو بھی مقدمے میں نامزد ہیں، ان کے ملک سے بھاگنے کے باعث بین الاقوامی وارنٹ جاری کئے جا چکے ہیں، ان پر بغاوت شروع کرنے کا الزام ہے جس کے باعث سنکارا اور ان کے 12 دیگر ساتھیوں کی موت واقع ہوئی۔ مرحوم کی بیوہ مریم سنکارا کے مطابق ”میں اس وقت (مقدمے کی کارروائی کے آغاز) کا بہت دیر سے انتظار کر رہی تھی، میں جاننا چاہتی ہوں کہ سچ کیا ہے اور کس نے کیا کیا۔“ سنکارا کی بیوہ مریم نے فرانس پر شوہر کے قتل کا الزام لگایا ہے۔ سنکارا کے بھائی پال سنکارا کے مطابق ”سابق صدر بلئیس کومپارو کے 27 سالہ دور اقتدار میں ہم قتل کے مقدمے کی کارروائی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اس لئے ہم نے بہت لمبا عرصہ انتظار کیا“۔

2015ء میں روک مارک کبورے برکینا فاسو کے صدر بنے، انہیں 2020ء میں دوبارہ منتخب کیا گیا۔ ان کی حکومت نے 2019ء میں برکینا فاسو کے دارالحکومت میں واقع ٹامس سنکارا میموریل پارک میں کامریڈ ٹامس سنکارا کا چھ میٹر لمبا مجسمہ نصب کیا۔ حکومت پارک کی توسیع کے ساتھ ساتھ سنکارا میوزیم کی تعمیر کا ارادہ بھی رکھتی ہے جہاں سینما ہال اور لائبریری کو عظیم انقلابی سے موسوم کیا جائے گا تاکہ سنکارا کے افکار نئی نسل تک پہنچ سکیں۔ ان کے انقلابی اقدامات سامراج اور اس کے اداروں میں کھٹکنے لگے تو بستہ برداروں نے قتل سے پہلے بدنام کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، ان پر نام نہاد انسانی حقوق کے اداروں نے وہی گھسے پٹے الزامات لگائے جس کے تحت ہر انقلابی کو راستے سے ہٹانے کے لئے راہ ہموار کی جاتی ہے۔ حالانکہ زمینیں غریبوں میں تقسیم کر کے پرولتاری انقلاب کا بیج برکینا فاسو کی سرزمین پر بونے کا سہرا ٹامس سنکارا کے سر ہی ہے۔ سنکارا کے فیصلوں سے برکینا فاسو کے وقار میں اضافہ ہوا اور انہوں نے عوام کو باشعور بنایا لیکن سامراجیت کے بستہ برداروں سے یہ برداشت نہ ہوا۔ برکینا فاسو کے موجودہ صدر روک مارک کبورے کا خیال ہے کہ اس مقدمے کے انصاف سے صلح اور امن کے دروازے برکینا فاسو پر کھلیں گے، لیکن سنکارا کے بعد برکینا فاسو کا چہرہ لہو لہو ہے۔ خانہ جنگی میں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ 10 لاکھ سے زائد بے گھر ہیں۔ سنکارا کے دور میں جو برکینا فاسو اپنے تعاون اور برداشت کے باعث عالمگیر شہرت حاصل کر چکا تھا وہ اب افراتفری کے باعث خبروں کی زینت بنتا ہے، جو اس وقت جہادیوں کے حملوں اور شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔

Khizar Manzoor
+ posts

خضر منظور کا تعلق راولاکوٹ جموں کشمیر سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔