خبریں/تبصرے

طالبان کی کرکٹ ٹیم کو دھمکیاں: افغانوں کو علی وزیر اور محسن کی باتیں سننے سے گریز کی ہدایت

کابل (یاسمین افغان) 25 اکتوبر کو افغانستان کے سقوط کے بعد افغان کرکٹ ٹیم پہلی مرتبہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر نظر آئی۔ یہ تمام افغانوں کیلئے ایک جذباتی لمحہ تھا، کیونکہ اسٹیڈیم میں افغان قومی پرچم لہرایا گیا اور پھر افغان قومی ترانہ بجایا گیا۔

پوری افغان ٹیم جذباتی تھی لیکن جس چیز نے تماشائیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا وہ افغان کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد نبی کا اپنے آنسو پونچھنے کا عمل تھا۔ افغان ٹیم نے سکاٹ لینڈ کے خلاف میچ جیتا اور مین آف دی میچ مجیب الرحمان نے افغانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”میں اپنے لوگوں کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں اور مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے افغانستان کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ میں ان شائقین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو یہاں آئے ہیں اور تین رنگ کا جھنڈا یہاں لائے ہیں۔ یہ ہمیں مثبت توانائی فراہم کرتا ہے۔“

میچ کے اختتام پر کپتان کے رونے اور مجیب الرحمان کی جانب سے جھنڈے لانے پر افغانوں کا شکریہ ادا کرنے کی ویڈیوز اور تصاویر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں اور یوں اس اقدام نے طالبان کو مشتعل کر دیا۔ طالبان کے ایک کمانڈر جنرل مبین کی ایک آڈیو ریکارڈنگ منٹوں میں وائرل ہو گئی۔ کلپ میں یہ سنا جا سکتا ہے کہ وہ افغان ٹیم کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جذبات کا اظہار کرنے کیلئے دھمکیاں دے رہے ہیں۔

آڈیو ریکارڈنگ کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ ”وہ ہر جگہ سہ رنگی پرچم کی بات کرتے ہیں، ہم انہیں دوبارہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں جانے دینگے۔ پھر وہ اسکاٹ لینڈ، انڈیا اور دیگر جگہوں پر جائیں۔ ہم رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں، کرکٹرز کو سیاست کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ کرکٹ کی تشکیل امارات نے کی تھی اور اس کی بنیاد امارات نے رکھی تھی۔ اب امارات کھیل کے خلاف نہیں ہے لیکن ان کو اطاعت کرنی ہو گی۔ کرکٹرز کو افغانستان کے نمائندے کے طور پر بات کرنی چاہیے۔ یہاں ایک نظام ہے، ہمارے پاس ایک جھنڈا ہے، یہاں وزیر ہیں۔ افغانستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم بھیجی ہے۔ غنی کے کرکٹ بورڈ نے انہیں نہیں بھیجا ہے۔ ان کے اخراجات امارات اسلامیہ کرکٹ بورڈ دیتا ہے۔ امارات اسلامیہ نے ان کا انتخاب کیا ہے۔ افغانستان میں ہمارے بہت سے کرکٹرز ہیں اوران سے بہتر بھی ہیں، ہم انہیں منتخب کرینگے۔ انتخاب امارات کے ہاتھ میں ہے نہ کہ رولا کے ہاتھ میں (طالبان اشرف غنی کی اہلیہ کو توہین آمیز انداز میں رولگئی یا رولا کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں)۔ جب وہ کابل ہوائی اڈے پر واپس آئیں گے تو میں دیکھوں گا کہ وہ کون سا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ میں وہاں کھڑا یہ دیکھوں گا کہ وہ کون سا جھنڈا اٹھائیں گے۔ میں وہاں ان کی محبت دیکھوں گا۔ میں وہاں سفیر جھنڈوں کے ساتھ کھڑا ہونگا اور ہر کھلاڑی کو جھنڈے کو چومنا ہوگا اور پھر ہی وہ جہاز سے اتر سکے گا۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ ہم نے سب کچھ طاقت کے ذریعے کیا ہے۔ ہم نے اللہ کی مدد اور اپنی ہیروز اور شہیدوں کے مکوں سے امریکہ کو شکست دی ہے۔ ہم نے غنی کو محل چھوڑنے پرمجبور کیا ہے۔ ہم نے طاقت کے ذریعے ناکاروں کو شکست دی ہے۔ اگر طاقت کے استعمال پر آئیں تو ہم بہت سے مختلف طریقوں کے بارے میں جانتے ہیں۔ جھنڈا ایک طرف رکھو۔ ہم اس پر بات نہیں کریں گے۔ افغانوں کو اتنا بیوقوف نہیں بننا چاہیے کہ وہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ محسن داوڑ ور علی وزیر کی باتیں سنیں اور پی ٹی ایم کی ایک پوسٹ سے کچھ اور کرنا شروع کر دیں۔ آپ کو ہماری بات ماننی ہوگی۔ ہمارے یہاں پارلیمانی نظام نہیں ہے۔“

رد عمل آنے کے بعد ایک انٹرویو میں جنرل مبین پر سکون ہو گئے اور کہا کہ ”یہ میری ہی آواز ہی تھی لیکن یہ کسی کے ساتھ ذاتی گفتگو تھی، جس نے اسے لیک کر دیا، تاہم میں انکا نام نہیں لوں گا۔ جھنڈے کے بارے میں فیصلے ہمارے نہیں قائدین اور عوام کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کئی مرتبہ اس پر بات کی ہے۔ ہاں یہ باتیں میں نے ذاتی طور پر کہی ہیں۔ میں نے کھلاڑیوں کے خلاف کچھ سخت الفاظ استعمال کئے ہیں، مجھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کرکٹ کھلاڑی ہمارے ہیرو ہیں۔ ہمیں ان کی تعریف کرنی چاہیے اور جب وہ واپس آئیں تو انکااستقبال کرنا چاہیے اور انہیں طاقت اور حوصلہ دینا چاہیے۔ پوری قوم کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ان کے آنے والے میچ کیلئے دعا کریں تاکہ ہم جیتیں اور کرکٹ کی تاریخ میں ایک نیاباب رقم کریں۔ ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ افغانستان جیت جائے گا۔“

سوشل میڈیا کا زمانہ 25 سال قبل سے مختلف ہے جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے۔ اب سوشل میڈیا کے ساتھ افغان سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے چند چیزوں کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے کابل یونیورسٹی کے چانسلر کیلئے اپنے نامزد کئے گئے شخص کو ہٹادیا اور یونیورسٹی کے نئے سربراہ پی ایچ ڈی ہیں اور اب ان جنرل نے بالواسطہ معافی بھی مانگ لی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts