پاکستان

ایک مظہر کے دو روپ…

فاروق سلہریا

مولانا طارق جمیل کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر بے شمار تبصروں کا موضوع بنی رہی۔ غالباً اس ملاقات کے بعد ہی مولانا طارق جمیل نے وہ ویڈیو بھی جاری کی جس میں انہوں نے لوگوں کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کا درس دیا ہے۔

سچ پوچھئے تو مولانا کی طرف سے عمران حکومت کی حمایت پر ہمیں کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی۔ غور کیا جائے تو اگر مولانا مذہبی حلقوں کے عمران خان ہیں تو عمران خان سیاست کے مولانا طارق جمیل ہیں۔ عمران خان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے کرپشن کا خاتمہ۔ مولانا طارق جمیل کے نزدیک ہر مسئلے کا حل ہے توبہ۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ دونوں طالبان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان کو طالبان خان کہا جاتا ہے اور وہ اسلام آباد میں طالبان کا دفتر کھولنا چاہتے تھے تو مولانا طارق جمیل آرمی پبلک اسکول پشاور پر طالبان کے حملے کے بعد بھی طالبان کی مذمت میں ایک لفظ تک نہ بول سکے۔ مولانا کا خیال تھا کہ طالبان کی دہشت گردی میں ہونے والی ہلاکتوں سے دراصل پاکستان مضبوط ہو رہا ہے کیونکہ جتنی قربانیاں دی جائیں گی پاکستان اتنا ہی مضبوط ہو گا (مولانا کا یہ بیان آن ریکارڈ ہے)۔ ادھر طالبان لوگوں کے گلے کاٹ کر انسانی سروں کے ساتھ فٹ بال کھیل رہے تھے‘اُدھر مولانا طارق جمیل دہشت گردی کا شکار لوگوں کو مشورہ دے رہے تھے کہ وہ اللہ سے توبہ کریں (گویا لوگ اس لئے دہشت گردی کا شکار ہو رہے تھے کہ اللہ ان سے ناراض تھا)۔

دونوں کو نہ فوجی آمروں سے کبھی کوئی مسئلہ ہوا ہے اور نہ فوجی آمریتوں سے۔ جنرل ضیا الحق نے عمران خان کو منہ بولا بیٹا بنا رکھا تھا۔ 1987ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں عمران خان کی قیادت میں پاکستان کی شکست کے بعد عمران خان نے دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دے دہا تھا (1992ء کی فتح کا کریڈٹ لینے والے عمران خان نے کبھی دو ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں شکست کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ ان دو ٹورنامنٹس کا ذکر ہی گول کر دیا جاتا ہے)۔ جنرل ضیا کے کہنے پر 1987 ء میں موصوف نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔

جنرل ضیا کے دور میں مولانا طارق جمیل تو تبلیغی جماعت کے شاید ابھی رکن بھی نہیں بنے ہوں مگر تبلیغی جماعت نے اس دور میں خوب ترقی کی اور جنرل ضیا کو کھلی باہوں کے ساتھ رائے ونڈ میں خوش آمدید کہا۔ ہاں البتہ مشرف آمریت کے دور میں یہ دونوں حضرات اپنی اپنی طرح آمریت کی خدمت کرتے رہے۔ اگر عمران خان نے کھل کر مشرف آمریت کی حمایت کی (بعد میں مشرف مخالفت ’انگور کٹھے ہیں‘ والی مخالفت تھی) تو مولانا طارق جمیل لوگوں کو توبہ کا درس دیتے رہے۔ نہ تو کبھی فوجی آمریت کی مخالفت کی نہ اس بدترین دہشت گردی کی جو طالبان کر رہے تھے۔ گیارہ ستمبر کے بعد طالبان کے خلاف ذہن سازی کی بجائے دونوں لوگوں کو کنفیوز کرتے رہے۔

اسی طرح دونوں نے پاکستان کے شہریوں کو غیر سیاسی بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ عمران خان نے سیاست میں گالم گلوچ پر مبنی فحاشی، فسطائی رجحانات، یک رخی بیانیہ (بدعنوانی) اور آمروں کو بطور رول ماڈل پیش کیا (عمران خان کا ماڈل جنرل ایوب ہیں)۔ جتنا نقصان عمران خان نے پچھلے عرصے میں پاکستان کے سیاسی کلچر کو پہنچایا‘ اتنا ستر سال میں جماعت اسلامی نہیں پہنچا سکی (کیونکہ جماعت اسلامی کو کبھی بڑے پیمانے پر مقبولیت نہ مل سکی)۔

مولانا طارق جمیل ایک دوسرے طریقے سے لوگوں کو غیر سیاسی بناتے ہیں۔ وہ اجتماعی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی کا درس دینے یا سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ استحصال کے خلاف مزدور کسان تنظیمیں بنانے کی بجائے لوگوں کو درس دیتے ہیں کہ وہ انفرادی جدوجہد کریں اور انفرادی جدوجہد بھی اس دنیا میں زندگی آسان بنانے کے لئے نہیں بلکہ اگلی دنیا بہتر بنانے کے لئے (حیرت کی کوئی بات نہیں کہ مولانا ہر کامیاب مولوی کی طرح خود انتہائی خوشحال زندگی گزارتے ہیں)۔ دونوں لوگوں کو غیر سیاسی بنا کر ’سٹیٹس کو‘ کو برقرا ر رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

دونوں ستاروں (Celebrity) والی شہرت سے لطف اٹھاتے ہیں۔ شاندار گھروں میں رہتے ہیں۔ شاندار گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ شاندار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دنیا بھر کی سیر کرتے ہیں۔ دونوں اپنے فین کلبوں کی مہمان نوازی کا مزا اٹھاتے ہیں۔

دونوں مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا کام ہی یہی ہے اور عمران خان کی رجعتی سیاست مذہب کے تڑکے کے بغیر بالکل پھیکی اور ادھوری ہے۔ اب تو انہوں نے باقاعدہ تسبیح بھی پکڑ لی ہے۔

دونوں چندہ مانگتے ہیں۔ دونوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ انہیں حرام مال سے چندہ نہ دیا جائے۔

دونوں میں ایک اور قدر بھی مشترک ہے۔ عمران خان پاک پتن درگاہ پر بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں اور مولانا سمیع الحق کے مدرسے کو سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے چندہ بھی دیتے ہیں۔ یوں انہوں نے دونوں فرقوں کو خوش رکھا ہوا ہے۔ مولانا طارق جمیل بھی کچھ کم نہیں۔ عمران خان سے بھی جھپیاں ڈال لیتے ہیں۔ کلثوم نواز کا جنازہ پڑھانے کے بعد نواز شریف کو بھی پرسہ دے آتے ہیں۔

دونوں ایک ہی مظہر کے دو روپ ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔