کابل (جدوجہد رپورٹ) افغان طالبان کی جانب سے ہزارہ گاؤں کو نذر آتش کرنے کے دوران مسجد کو بھی جلا دیا گیا ہے، جبکہ دوسری جانب سابق افغان فوجی داعش کی صفوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
افغان صحافی حامد ہادیان کی جانب سے ٹویٹر پرشیئر کی گئی ایک ویڈیو میں جلائے گئے گاؤں کے مکانوں کے ملبے پر کھڑے ایک شخص کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ دائیکنڈی گاؤں کو جلائے جانے کے واقعے کے بعد بنائی گئی اس ویڈیو میں بزرگ شہری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”انہوں نے مسجد کو کیوں جلایا؟ یہ خدا کا گھر تھا۔“
اسی ویڈیو میں ایک اور بزرگ شہری کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ”انہوں نے قرآن کے نسخے بھی جلا دیئے ہیں۔“
ادھر وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق افغان حکومت کی سکیورٹی فورسز کے کچھ اراکین نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ وہ اراکین ہیں جو طالبان کے ہاتھوں اپنی حفاظت کیلئے خوفزدہ تھے۔
’دی نیوز‘ کے مطابق اس رپورٹ کے رد عمل میں طالبان کی وزارت داخلہ نے کہا کہ طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے، سابق سکیورٹی فورسز اراکین سمیت کسی کو بھی اپنی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔
ترجمان وزارت داخلہ سید خوستی کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی اپنی حفاظت کی فکر نہیں کرنی چاہیے، یہ بے بنیاد رپورٹ ہے، داعش اتنی فعال نہیں ہے جتنا کہ کہا جا رہا ہے۔
ایک سابق سفارتکار عزیز معارج کے مطابق عام معافی کو بھی عملی ہونا چاہیے، یہ ظاہر کیا جانا چاہیے کہ کسی کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاشی چیلنجز اور بے روزگاری بھی ان وجوہات میں شامل ہیں جنہوں نے سابق سکیورٹی اہلکاران کو داعش میں شامل ہونے پر مجبور کیا ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں بھی سابقہ حکومت کی سکیورٹی فورسز نے داعش کی قوتوں میں ایک بڑا اضافہ کیا تھا۔ تاہم طالبان داعش کو معمولی مسئلہ قرار دے رہے ہیں اور امریکہ پر افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا پروپیگنڈہ کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔