کابل (جدوجہد رپورٹ) افغانستان کے مختلف صوبوں میں قائم مہاجر کیمپوں میں بھوک اور غربت سے مجبور افغان خاندانوں کی جانب سے اپنی بچیاں فروخت کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
امریکہ خبررساں ادارے ’سی این این‘ کی ایک رپورٹ میں ایک 9 سالہ بچی کی فروخت کی داستان رقم کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ اس طرح کے متعدد واقعات افغانستان کے مختلف علاقوں میں رونما ہو رہے ہیں جہاں خاندان خوراک کی ضروریات پورا کرنے کیلئے اپنی بچیوں کو فروخت کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پروانہ نامی 9 سالہ بچی کو 55 سالہ قربان نامی شخص کو فروخت کیا گیا ہے۔
پروانہ کے والد کے مطابق اسکا خاندان شمال مغربہ صوبہ بادغیس میں ایک افغان مہاجر کیمپ میں رہ رہا ہے، جہاں انسانی امداد پر گزارہ چل رہا تھا لیکن طالبان کے قبضے کے بعد امداد بند ہو گئی اور معیشت تباہ ہو گئی، کوئی کام نہیں مل رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پروانہ کے والد نے اپنی 12 سالہ بہن کو بھی چند ماہ قبل فروخت کر دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق پروانہ سمیت بہت سی نوجوان افغان لڑکیوں کو شادی کیلئے فروخت کیا گیا ہے، بھوک نے کچھ خاندانوں کو دل دہلا دینے والے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہے، خاص طور پر ایک ایسا وقت ہے جب خوفناک سردی قریب آتی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک کارکن محمد نعیم ناظم کے مطابق ”دن بہ دن بچوں کو بیچنے والے خاندانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، خوراک کی کمی، مزدوری نہ ملنے اور کوئی مالی وسیلہ نہ ہونے کی وجہ سے خاندانوں کو لگتا ہے کہ انہیں اب یہ کرنا پڑے گا۔“
پروانہ کے والد کا کہنا تھا کہ وہ خاندان کے 8 افراد ہیں، خاندان کے دیگر افراد کو زندہ رکھنے کیلئے اس طرح کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے، تاہم پروانہ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم بھی چند مہینوں تک ہی خاندان کو زندہ رکھنے میں معاون ہو سکے گی، اس سے پہلے ملک کو کوئی حل تلاش کرنا پڑے گا۔“
9 سالہ پروانہ کو 55 سالہ قربان نے ایک بھیڑ اور 2 لاکھ افغانی کے عوض خریدا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ افغانستان میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی شادی غیر قانونی ہے، لیکن وسیع پیمانے پر بھوک اور مایوسی کی وجہ سے دیہی علاقوں میں یہ کام برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ تاہم طالبان کے قبضے کے بعد سے پروانہ جیسے کہانیاں عروج پر ہیں۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کی نصف سے زائد آبادی کو شید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور آنے والے مہینوں میں 5 سال سے کم عمر کے 30 لاکھ سے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خوراک کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، بینکوں میں رقوم ختم ہو رہی ہیں اور مزدور بلامعاوضہ جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال 6 لاکھ 77 ہزار سے زائد لوگ بے گھر ہوئے۔