عمر رشید
طلبہ سیاست کیوں ضروری ہے؟ یہ سوال اٹھانا بھی اس مجرمانہ حکمران طبقے کے زر خرید مفلوج فلسفہ دانوں، بانجھ دانشوروں، جاہل پروفیسروں اور گماشتہ کاروباری پارلیمانی سیاستدانوں کے لیے خاصہ تکلیف دہ ہے۔ اس سوال پہ سب سے زیادہ بزدلانہ غصہ تعلیم فروشی کرنے والے بڑے سرمایہ داروں کو اور ان کے بکاؤ میڈیا کو ہو گا۔ ان سماج دشمن قوتوں کو طلبہ ایسے خام مال نظر آتے ہیں جنہیں اجرتی غلامی کیلئے ایسی تربیت دی جائے کہ ان میں سوال اٹھانے، اختلاف کرنے، تنقید کرنے اور اپنا آزادانہ نقطہ نظر بنانے کی تخلیقی صلاحیتوں سے اندھا، بہرہ اور گونگا کر دیا جائے۔
ایسی ڈگریاں جو اخراجات کی رسیدیں ہوں، ایسے امتحانات جہاں سوچ میں ارتعاش جنم لینے کی بجائے یاداشت کا امتحان لیا جائے، جو انسان کو صرف بگڑی ہوئی عقل ہی دے سکتی ہیں جو جہالت اور حماقت سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف مراحل طے کرتا ہے، بچپن سے شباب اور نوجوانی میں قدم رکھتا ہے تو اس میں توانائی، احساس، جزبات، وفا اور محبت کا طوفان ہوتا ہے جس کے اظہار کیلئے ایک صحت مند فضا کا مہیا کرنا سماج اور ریاست کی ذمہ داری ہے نہیں تو وہ ریاست جرائم اور گھٹن کی آماجگاہ ہے۔
ماضی کی درخشاں روایات گواہ ہیں کہ جب طلبہ سیاست تھی تو طلبہ علم، دانش، سیاسی بصیرت، جرات، خود اعتمادی اور جدوجہد کے عالم فاضل تھے۔ آج کیا ہے؟ قوتیں، جوانیاں، راعنایاں، بیگانگی، نفسیاتی بیماریوں، منشیات اور موبائل سکرینیوں میں غرق ہیں جہاں جینے کی تمنا نہیں نہ موت کا ڈر بس ایک بوجھ ہے جو اٹھایا ہوا ہے۔ دھیرے، دھیرے روز مرنا ہے۔ یہ بے سبب نہیں، اس حکمران طبقے کی دانستہ اور شعوری سازش ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ تو وہ انگارے ہیں جو بڑے تختوں اور تاجوں کو جلا دیتے ہیں، جو بڑے عرش کے دیوتاؤں کو خاک کر دیتے ہیں، حکمران طبقے کے تاریخ دان 1968-69ء کے انقلاب کے شعلوں سے آج تک ڈرے ہوئے ہیں۔ مگر آج ظلم اور پستی کی انتہا ہو چکی ہے، جبر اور مایوسی کا انت ہے، انسانیت تڑپ رہی ہے، مر رہی ہے۔ راستے کی متلاشی ہے۔
آج اس خدادد مملکت پاکستان میں انقلاب کے تمام اجزا اور عناصر پک کر تیار ہو رہے ہیں جس کا سنگم ایک انقلابی اجتماعی قیادت سے ہونا تاریخ کی ضرورت ہے۔ محنت کش طبقہ اس معیشت اور اس کے تمام ڈھانچوں سے شدید نفرت کر رہا ہے مگر راہ نجات نہیں۔ حالات کی تپش طلبہ کو بیدار کر رہی ہے، اب تو وہ انقلابی افکار سے مسلح بھی ہو رہے ہیں، تم جتنا بھی جکڑ لو ان زنجیروں کو حق اور سچ کی طاقت پاش پاش کر دے گی۔ طلبہ سیاست زندگی کو بچانے کے لیے کرنی ہے۔ جب ایک 18 سال کا نوجوان شناختی کارڈ کے ساتھ ووٹ ڈال سکتا ہے جو کہ سیاسی عمل ہے تو وہ وہ لینے کا بھی حق دار ہے۔
طلبہ سیاست ضروری ہے روزگار کے حصول کے لیے، مفت تعلیم کیلئے، یونین سازی کیلئے، یہ تعلیمی ادارے ہم سے چلتے ہیں، یہ گورنر، وی سی، ڈی ایس اے، ہال وارڈن، ڈین، پروفیسر، پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر سب ہماری فیسوں اور عوامی ٹیکسوں سے اپنی مراعات اور بھاری تنخواہیں لیتے ہیں۔ یہ ملازم ہیں ٹھیکے دار نہیں۔ طلبہ سیاست ضروری ہے کیونکہ کروڑوں بچے تعلیم کی روشنی سے محروم ہیں، ان کی تعلیم کا حق اس ریاست سے چھیننا ہے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ جنسی درندوں کو جو مسلموں کے روپ میں مسلط ہیں، ان سے چھٹکاراحاصل کیا جائے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ تعلیم کا دھندہ روکا جائے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ سوال کیا جائے، سوچا جائے، سوچ کو وسعت دی جائے۔یہ ایک دلکش شخصیت کے واسطے ضروری ہے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ اس پارلیمنٹ میں لگا وحشتناک کرتب بند کیا جائے اور عوام کی حقیقی جمہوریت پنپ سکے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ اس معیشت پر لگی خون پینے والی جونکوں سے چھٹکارا حاصل کر کے غریب اور محروم عوام کو آسودگی دی جائے۔ طلبہ سیاست ضروری ہے تاکہ غلامی سے نکلا جائے اور انقلاب کرتے ہوئے پوری نسل انسانیت کو راہ نجات دکھائی جائے۔
اک روز ہم ہی ہوں گے اجالوں کے پیامبر
ہم لوگ جو مدت سے اندھیروں میں پڑے ہیں