خبریں/تبصرے

سینیٹ انتخابات: جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے…

فاروق طارق

چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ’ہارنے‘ والے حاصل بزنجو سے جب پوچھا گیا کہ یہ کون چودہ لوگ ہیں جو اندر جا کر بدل گئے تو انہوں نے کہا یہ جنرل فیض کے لوگ ہیں۔ حاصل بزنجو کے کہنے کا واضح مطلب تھا کہ انہیں آئی ایس آئی نے ہرایا ہے۔

ایک اور ویڈیو بھی اب لاکھوں عوام دیکھ چکے ہیں۔ جس میں کہا جا رہا ہے کہ 54 ووٹ حاصل بزنجو کے حق میں ہیں۔ پانچ منٹ بعد یہ رزلٹ 50 ووٹ تک محدود ہو گیا۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت بارے آج عوام مزید باشعور ہوں گے کہ یہ امیر لوگوں اور دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی کی جمہوریت ہوتی ہے۔ 64 ممبران سینیٹ کھڑے ہو کر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کرتے ہیں۔ خفیہ ووٹنگ میں یہ کم ہو کر 50 رہ جاتے ہیں۔ کسی نے تو ان چودہ کو اپنا ووٹ اپنی پارٹی کے نامزد فرد کی بجائے مخالف دھڑے کو ڈالنے کا کہا ہو گا۔ پہلے انہیں نامعلوم کہا جاتا تھا۔ آج حاصل بزنجو نے کھلے عام کہہ دیا وہ کون ہیں۔

کل رات ہی وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اس سے قبل دن کے وقت صادق سنجرانی کی جانب سے انتخابات سے قبل ہی مستعفی ہونے کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں۔ مگر راتوں رات کایا پلٹ دی گئی۔

اپوزیشن جماعتوں نے ان انتخابات میں ایک دفعہ پھر اپنے اکثریت تو ثابت کر دی مگر سینیٹ کے انتخابات کی ہیرا پھیریاں انہیں مات دے گئیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے افراد کی اکثریت کو نہیں گنا جاتا بلکہ سینیٹ کے کل ممبران چاہے وہ حاضر ہیں یا نہیں کو بنیاد بنا کر اکثریت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ابھی اپوزیشن اس سلسلے میں سینیٹ قوانین میں اصلاحات لانے کی بات کر رہی ہے۔

ان انتخابات میں یہ تو واضح ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہر پارٹی میں موجود ہیں جو اپنی جماعت سے وفاداری کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن پر کام کرتے ہیں۔ یہی وہ چودہ افراد تھے جنہوں نے خفیہ ووٹنگ میں اپنی ’حقیقی پارٹی‘ کے کہنے پر ووٹ ڈال کر پانسہ پلٹ دیا۔

اگرچہ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایسے افراد کے خلاف سخت تنظیمی کاروائی کی جائے گی جنہوں نے اپنی پارٹی سے دغا بازی کی ہے مگر شکست کے بعد اس قسم کے بیانات دینا تو ان سرمایہ دارانہ پارٹیوں کی مجبوری ہوتی ہے۔ یہ تو ان جماعتوں کی روایت ہے کہ ’جیتنے‘ والوں کو ٹکٹ دینا ہے۔ انتخاب کے دوران امارت دیکھی جاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ایک اضافی خوبی شمار ہوتی ہے۔ یہ جیتنے والے ہر انتخاب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اپنی پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں۔

پچھلے 2018ء کے عام انتخابات سے قبل ان کی ایک بڑی تعداد راتوں رات تحریک انصاف میں شامل ہوئی تھی اور سینیٹ کے انتخابات کے وقت جو 2015ء میں ہوئے تھے مسلم لیگ ن کی اکثریت کے واضح امکانات کو نا امید ہونا پڑا تھا۔ وہ اپنا چیئرمین بھی منتخب نہ کر ا سکے تھے۔

سینیٹ کے یہ انتخابات ایک سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئے۔ اکثریت کو اقلیت میں کس طرح بدلا جا سکتا ہے یہ انتخاب اس کی ایک عمدہ مثال تھے۔ یہ سویلین معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی کھلی مداخلت کا اظہار تھے۔ یہ سیاسی اشرافیہ کی ضمیر فروشی کا اظہار تھے۔ یہ انتخاب اگرچہ کسی نئی سیاسی تبدیلی کا باعث نہیں بنے اور بزنس معمول کے مطابق جاری رہے گا مگر اس سے تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔

انتخاب جیت کر تحریک انصاف مزید مضبوط نہیں بلکہ بے نقاب ہی ہوئی ہے۔ تیل کی قیمتیں پاکستان میں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ تحریک انصاف ان انتخابات کے بعد مزید تیزی سے نیو لبرل ایجنڈے پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرے گی۔

پارلیمانی سطح پر درپیش چیلنج سے تو انہوں نے نپٹ لیا ہے مگر عوامی سطح پر انہیں ابھی مزید نفرتوں اور مزاحمت کا سامنا جاری رہے گا۔

لیکن امتحان تو اب مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا شروع ہوا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب جیت کر بھی وہ کوئی خاص معرکہ مارنے والے نہیں تھے۔ لیکن اب ایک تو اپنی صفوں میں مخالفوں کے افراد کو کیا یہ فارغ کر پائیں گے اور کیا سینیٹ میں اکثریت کا فائدہ عوام مخالف قوانین کا راستہ روک کر اٹھا پائیں گے؟ ان سوالات کا جواب آنا ابھی باقی ہے۔

سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کی ناکامی کسی سیاسی استحکام کا باعث نہیں بلکہ اس سے حکمران طبقات کی لڑائیاں مزید تیز ہوں گی اور تحریک انصاف ایک غیر مستحکم، کمزور، اسٹیبلشمنٹ پر منحصر، لڑکھڑاتی، ڈگمگاتی، کمزور حکومت کے طور پر ہی کام کرتی رہے گی۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔